اکیسویں صدی کا ترک ’سلطان‘، رجب طیب ایردوآن
8 جولائی 2018نو جولائی کو صدر رجب طیب ایردوآن نئی مدت صدارت کے لیے پارلیمان میں اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ترکی باقاعدہ طور پر پارلیمانی جمہوریت سے صدارتی نظامِ حکومت میں تبدیل ہو جائے گا۔
ترکی نے یورپی یونین میں شمولیت کے لیے تیرہ برس قبل مذاکرات کا باقاعدہ آغاز کیا تھا، مگر اس وقت ترکی جمہوریت، آزادیء اظہار اور سماجی ہم آہنگی کا ایک نمونہ تھا، مگر ترکی اب اسلامی شدت پسندی، قوم پرستی اور آمرانہ طرز حکومت کی جانب بڑھ رہا ہے۔نیا صدارتی نظام: ایردوآن کے نئے وسیع تر اختیارات کون سے؟
ترکی میں الیکشن ’غیر منصفانہ‘ تھے، بین الاقوامی مبصرین
ترکی میں پارلیمانی کنٹرول کے خاتمے کے بعد ایردوآن کے پاس ایک طرح سے مطلق العنان اختیارات آ نے کو ہیں، یعنی اب وہ حکومتی اختیارات کا ماخذ بن جائیں گے۔ اب انہیں ججوں کی تعینات تک کے اختیارات بھی حاصل ہوں گے، جس کا مطلب ہے کہ عدلیہ ان کے زیر اثر کام کرے گی۔
استنبول کی سبانجی یونیورسٹی کے پالیسی سینٹر سے وابستہ سینیئر اسکالر ایرسین کالائجیوآؤلو تاہم اس پیش رفت کے نتائج سے متعلق غیر یقینی کی صورت حال کا شکار ہیں، ’’اب تک یہ نیا نظام اور اس کے اثرات پر ہمارے ساتھ کی گئی بات چیت عمومی نوعیت کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو عوام اور نہ ہی سیاسی ماہرین یہ سمجھ پائے ہیں کہ اس نئے نظام کی تفصیل کیا ہے اور اثرات کیا ہو سکتے ہیں۔‘‘
ایردوآن کئی مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ دنیا میں متعدد دیگر ممالک میں بھی صدارتی نظام نافذ ہے، تاہم ترکی امریکا یا فرانس کی صدارتی جمہوریت سے خاصا مختلف ہے۔ مثال کے طور پر امریکا میں صدر کے پاس پارلیمان کو تحلیل کرنے کا اختیار نہیں ہے، جب کہ ایردوآن کے پاس پارلیمان کو تحلیل کرنے کا اختیار ہے۔ اسی طرح فرانس میں آئینی عدالت کے ججوں کی تقرری کا اختیار پارلیمان کے پاس ہے، تاہم ایردوآن اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے تقرر کے فیصلے کے اختیارات کے حامل ہوں گے۔
اس کے علاوہ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا اور فرانس جیسے صدارتی طرز حکومت کے حامل ممالک میں ایک مضبوط سول سوسائٹی بھی موجود ہے، جو آمرانہ فیصلوں کے خلاف بھرپور احتجاج کی صلاحیت رکھتی ہے، تاہم ترکی میں ایسا نہیں۔
ع ت ع الف