120811 Indien Pakistan Rivalitäten
15 اگست 2011پاکستان اور بھارت 14 اور 15 اگست کو برطانوی نوآبادياتی دور سے آزادی کا جشن مناتے ہيں۔ پچھلے 64 برسوں ميں ان دونوں ملکوں کے درميان محاذ آرائی ميں دس لاکھ سے بھی زيادہ جانيں ضائع ہو چکی ہيں۔ دونوں ملکوں کی دشمنی سے نہ صرف اُن کی اپنی بلکہ پورے علاقے کی ترقی ميں رکاوٹ پڑ رہی ہے۔ ايک مثال افغانستان ہے، جہاں دونوں ايک دوسرے کو نيچا دکھانے کے درپے ہيں۔
ايٹمی طاقتوں پاکستان اور بھارت کو اکثر دو غير يکساں بھائی کہا جاتا ہے۔ ان ميں سے ايک، بھارت بڑا اورچمک دمک والا ہے، جسے دنيا ہاتھوں ہاتھ ليتی ہے جبکہ دوسرا پاکستان ہے، جو چھوٹا، غير مقبول اور دنيا ميں الگ تھلگ سمجھا جاتا ہے۔
بھارت کی اقتصادی نمو کی شرح پچھلے برسوں کے دوران اوسطاً آٹھ فيصد رہی ہے۔ اُسے مستقبل کی سپر طاقت کہا جا رہا ہے اور وہ خود اعتمادی سے سلامتی کونسل ميں مستقل نشست کا مطالبہ کر رہا ہے۔
دوسری طرف بعض مبصرين کے بقول پاکستان کے ايک ناکام رياست ميں تبديل ہونے کا خطرہ ہے۔ اُسے دہشت گردوں کی جائے پناہ بھی کہا جاتا ہے۔
پاکستان اور بھارت ميں دنيا کی مجموعی آبادی کا پانچواں حصہ رہتا ہے۔ پاکستانی ماہرسياسيات سجاد ناصر نے کہا: ’’دونوں ملکوں کی اہم ترين مشترک بات يہ ہے کہ دونوں ميں شديد غربت پائی جاتی ہے۔ صرف امن کی صورت ميں ترقی ہو سکتی ہے۔‘‘
بھارتی وزير خزانہ مکھرجی کے مطابق اگلے سال ملک کا دفاعی بجٹ تقريباً 37 ارب امريکی ڈالر کا ہو گا، يعنی 11 فيصد زيادہ۔ پاکستان بھی پيچھے نہيں ہے۔ اُس کی فوج دنيا کی ساتويں بڑی فوج ہے۔ دونوں ملکوں کو تعليم يا شکستہ اقتصادی ڈھانچے کی تعمير کے ليے ان رقوم کی سخت ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کے درميان محصول کے خاتمے اور آزاد تجارتی زون کے قيام سے اُن کی خوشحالی ميں نماياں اضافہ ہو سکتا ہے۔ دہلی کی جواہر لال نہرو يونيورسٹی کی سويتا پانڈے نے کہا کہ اگر بھارت اور پاکستان کے روابط اچھے ہوں تو علاقائی تعاون کی تنظيم سارک بھی زيادہ مؤثر طور پر کام کر سکتی ہے۔
ستم ظريفی کی بات يہ ہے کہ محاذ آرائی کے باوجود پاکستان اور بھارت کے درميان اچھے ثقافتی رشتے ہيں۔ اردو شاعری بھارت ميں پسند کی جاتی ہے۔ دونوں ممالک کے بہت سے سياستدان بھی ہمسايہ ملک ميں پيدا ہوئے اور پلے بڑھے تھے۔ اس ليے تاريک ماضی کے باوجود بہتر مستقبل کی اميد رکھی جا سکتی ہے۔
رپورٹ: پريا ايسل بورن، عامر انصاری/ شہاب احمد صديقی
ادارت: امجد علی