"اگلا قدم روس پر اسلحے کی پابندی ہونا چاہیے"
21 مارچ 2014یوکرائن کا تنازعہ اور کریمیا کا روس کے ساتھ الحاق بین الاقوامی برادری اور روس کے مابین تعلقات پر براہ راست اثر انداز ہوا ہے۔ اس کی شدت کچھ عرصے سے امریکا اور اُس کے اتحادیوں کی جانب سے روس کے خلاف کیے جانے والے اقدامات سے تو محسوس ہو ہی رہی تھا تاہم گزشتہ روز برسلز میں ہونے والے سربراہی اجلاس کے فیصلے اس کی کُھلی نشاندہی کر رہے ہیں۔
یورپی یونین کے متعدد رکن ممالک کا روس کی گیس پر انحصار بہت زیادہ ہونے کے باوجود ان ممالک نے اسٹریٹیجک اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کے حامل جزیرہ نما کریمیا کے روس کے ساتھ الحاق کو نہ صرف غیر قانونی قرار دیا ہے بلکہ روس اور یوکرائن کے مزید بارہ اعلیٰ حکام کو کریمیا تنازعے میں ملوث قرار دیتے ہوئے ان پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان گزشتہ روز برسلز منعقدہ یورپی یونین کے سربراہی اجلاس کے پہلے روز ہی کر دیا گیا۔ ساتھ ہی جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اجلاس کے پہلے دن کی کارروائی کے بعد کل دیر گئے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا،"ہم نے ایک بار پھر یہ بات واضح کر دی ہے کہ یوکرائن کا بحران اگر شدت اختیار کرتا ہے تو ہم تیسرے درجے کے اقدامات شروع کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ ان میں اقتصادی پابندیاں شامل ہوں گی"۔
اس موقع پر میرکل نے ماسکو کو خبردار کیا کہ وہ کریمیا کے بعد یوکرائن کے جنوبی یا مشرقی علاقوں کی طرف پیشقدمی کی کوشش نہ کرے۔
یورپی یونین نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ہر طرح کے مذاکرات کو رد کر دیا ہے تاہم میرکل نے کہا کہ وہ بذات خود کوشش کریں گی کہ یورپی یونین روسی صدر کے ساتھ رابطہ قائم کرے۔ اس ضمن میں تاہم میرکل سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا ولا دیمیر پوٹن کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ان کے موقف میں لچک پیدا کی جا سکتی ہے تو میرکل کا جواب غیر واضح تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس بارے میں کچھ کہنا بہت مشکل ہے۔
اُدھر یورپی کونسل کے صدر ہیرمن فان رومپوئے نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ روس اور کریمیا کے اُن افراد کی فہرست میں توسیع کی جائے گی، جن پر ویزے کی پابندی عائد کی گئی ہے اور جن کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ فہرست آج اجلاس کے دوسرے اور آخری روز جاری کی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں فرانسیسی صدر کی طرف سے ایسے 12 افراد کی بھی بات کی گئی جن کے نام اب تک شامل نہیں کیے گئے تھے۔
روس کا اقدام ناقابل قبول ہے، یہ کہنا تھا برسلز منعقدہ اجلاس میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کا۔ "یورپی یونین میں شامل ممالک کو متحد ہو کر روس کے ساتھ واضح انداز میں بات کرنا چاہیے۔ کریمیا میں روس کی پیش قدمی کے تناظر میں مزید متعلقہ افراد پر سفری پابندیوں اور اُن کے اثاثوں کو منجمد کرنے کے حوالے سے روس کو واضح پیغام مل جانا چاہیے"۔
جرمن چانسلر میرکل نے برسلز اجلاس سے پہلے اپنی پارلیمان سے خطاب میں کہا تھا کہ جرمن حکومت مشرقی اور جنوبی یوکرائن کی سرحدوں کی نگرانی کی خاطر سرحدوں پر بین الاقوامی کنٹرول کے لیے یورپی سلامتی اور تعاون کی تنظیم OSCE کے ایک مضبوط مشن کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔ تاہم اس بارے میں گزشتہ روز میرکل کی خواہش کے مطابق بات چیت نیہں ہوئی جس کے بعد میرکل نے کہا، "جب اس بارے میں یورپی سلامتی اور تعاون کی تنظیم OSCE میں عدم اتفاق پایا جاتا ہے تو ایسے میں اس سلسلے میں اقوام متحدہ میں کسی اتفاق کی خاطر خواہ امید نہیں کی جا سکتی"۔
اُدھر لیتھوینیا کی صدر ڈالیا گریباؤسکیٹ نے روس پر ایک درجہ بلند پابندی کی بات کی،" ہمارا اگلا قدم روس پر اسلحے کی پابندی ہونا چاہیے کیونکہ روس ہمیں مسلسل عسکری دھمکیاں دے رہا ہے، پروپیگنڈا اور اطلاعات کی جنگ شروع کیے ہوئے ہے اور آج بھی اُس نے یوکرائن کو اقتصادی پابندی کی دھمکی دی ہے" ۔