اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو، صدف زہرا کی موت
10 جولائی 2020تمہاری بیٹی کی پہلی سالگرہ تھی، بہت خوش دکھائی دے رہی تھیں تم دونوں۔ لائیک کیا لیکن معذرت کمنٹ نہ کیا۔ ماؤں کے عالمی دن پر تمہارے خاوند نے اور والد کے دن پر تم نے اپنے شوہر کے بارے میں پیغامات بھی لکھے تھے۔ تو سوشل میڈیا کی تمہاری مجازی دنیا کے دیگر باسیوں کی طرح مجھے بھی یہی لگا، تم خوش ہو۔
اسی دنیا میں 'یہ وقت بھی گزر جائے گا‘ اور 'اپنے ٹوٹے ہوئے دل کو پھر سے جوڑنے کا وقت ہے‘ جیسے پیغامات بھی پوسٹ کیے تھے تم نے۔ لیکن شاید تمہارے گھر والوں اور انتہائی قریبی سہیلیوں کے علاوہ شاید ہی کوئی ان میں پنہاں درد کو سمجھ پایا ہو گا۔
یہ مجازی سماجی رابطے بھی عجیب ہوتے ہیں۔ فیس بک، انسٹاگرام، ٹوئٹر۔۔۔ ایک الگ دنیا میں جا بستے ہیں ہم۔ بچپن کے دوست، جن کے بچپن کے خدوخال بھی ذہن سے محو ہو چکے ہیں، وہ قریبی رشتہ دار و عزیز، جن سے حقیقی دنیا میں شاید کبھی ملاقات بھی نہ ہوئی، یہ سب لوگ ہتھیلی برابر سکرین پر موجود ہیں۔
تصویروں، تحریروں، غیر ضروری مباحثوں میں مجازی طور پر مشغول 'فرینڈز لسٹوں‘ میں شامل یہ سب انسان، بہت قریب دکھائی دیتے ہیں۔
رابطہ کاری کی یہ سماجی دنیا بہت حقیقی محسوس ہوتی ہے۔ سرگوشی ہو یا چیختی چنگھاڑتی بحث، اب اسی مجازی دنیا میں ہونے والی باتوں کو دیکھ، سن اور پڑھ کر ہی اب لوگوں کے بارے میں حقیقی رائے بناتے ہیں ہم۔
تم نے بھی تو شاید ایسا ہی کیا تھا!
ایسی ہی مجازی دنیا میں تم بھی شاید اس شخص کی محبت میں مبتلا ہوئی تھی۔ کتنی سادہ سی خواہش تھی تمہاری۔ ایک ایسا شریک سفر، جس کے ساتھ تمہارے خیالات اور نظریات ملتے ہوں، جس کے ساتھ زندگی خوش گوار گزرے۔
تم وطن اور اہل وطن کی حالت پر کڑھتی تھی۔ قتل و غارت، انتہا پسندی، نفرت، بڑھتی سماجی خلیجوں کو دیکھ کر چپ سادھ لینے پر تمہارا یقین نہیں تھا۔ حالات بدلنے کی طاقت پر یقین رکھنے والی مضبوط لڑکی تھی تم۔
اور پھر جب کبھی بیرونی حالات ناقابل برداشت ہو جاتے تو کسی ناول یا افسانے کی تخیلاتی دنیا میں گم ہو کر خود کو بہلا لیتی تھی۔
لو میں بھی خیال کی رو میں بہتے ہوئے کسی اور رخ چل نکلا ہوں۔
چھبیس جون کو تمہاری سالگرہ پر اس مجازی دنیا میں تہنیتی پیغام لکھنا بھول گیا تھا۔ انتیس کو دفتر میں بیٹھے فیس بُک نے تاخیر ہی سے سہی، لیکن یاد دلا دیا تھا تو دوپہر دو بجے مبارک باد لکھ دی تھی۔ تم نے نہ لائیک کیا، نہ جواب دیا۔
دو روز پہلے کسی صحافی کو اپنی بیوی کے قتل کے الزام میں گرفتار کیے جانے کی خبر ملی تھی، روز ملتی ہیں ایسی خبریں۔ پھر تم تو جانتی ہو، چھ برس پہلے دہشت گردانہ حملے میں اپنے بھائی کے مرنے کے بعد سے میں بھی سخت دل ہو چکا ہوں۔
ٹویٹر پر جسٹس فار زہرا ٹریند بھی دیکھتا رہا، روز چلتے ہیں ایسے ٹرینڈز۔ دفتری کام کے لیے ضروری نہ ہو تو ایسے ٹرینڈز پر کلک بھی نہ کروں۔ لیکن کام پر ہی تو تھا۔ تین روز سے دیکھ رہا ہوں۔ سوچا تھا سخت جان ہو چکا ہوں لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی آنسو بہہ نکلتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر تمہاری موت زیر بحث ہے!
جہاں تم اب ہو، وہاں تو اب یہ دنیا بے معنی ہو گی؟ انٹرنیٹ تک رسائی بھی نہیں ہو گی؟ تمہیں اس دار فانی سے گئے آج بارہ دن بیت چکے۔ سوچا تمہیں اپ ڈیٹ کر دیتا ہوں۔
’پسند کی شادی کا انجام‘
غصہ تو آئے گا تمہیں یہ سن کر لیکن تمہارے پیارے وطن سے ہی کچھ مرد و خواتین سماجی رابطوں کی دنیا میں یہ کہتے دکھائی دیے کہ صدف زہرا اگر پسند کی شادی کے بجائے 'ارینج میرج‘ کر لیتی، تو ایسا نہ ہوتا۔
اب تم کہو گی کیا والدین کی پسند کے مردوں سے شادی کرنے والی لڑکیوں پر کیا گھریلو تشدد نہیں ہوتا؟
’یہ لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں‘
نئے پاکستان کا خواب تم بھی عمران خان کے ساتھ دیکھا کرتی تھی نا؟ اب تمہارے قتل کا ارتکاب کرنے کی خبر سامنے آنے کے بعد سے تمہارے شوہر کی سیاسی وابستگی زیر بحث ہے، تمہاری موت نہیں۔ پدر شاہی معاشرے کے علمبردار کئی 'اصلی مرد‘ بڑے جوش و جذبے سے شعلہ بیانی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
عقیدے اور مسلک کی بنیاد پر فرقہ وارانہ تقسیم پر بھی تم کڑھا کرتی تھی۔ اب تمہارے شوہر کا نام اور عقیدہ بھی زیر بحث ہے۔
شاید جواب میں تم سوال ہی پوچھو گی، کیا دوسری سیاسی جماعتوں سے وابستہ اور دیگر عقائد کے پیروکار پاکستانی مرد اپنی عورتوں پر تشدد کے مرتکب نہیں ہوتے؟
’عورت مارچ والے کہاں ہیں؟‘
تمہارا شوہر عورت مارچ میں موجود تھا شاید؟ عورتوں سے اظہار یک جہتی کے پیغامات بھی ٹویٹ کیے تھے، کیا 'لبرل‘ تھا؟ ایسی ٹویٹس بھی تمہیں ملیں گی ان دنوں۔
اب تم کہو گی اسی لیے تو عورت مارچ کی ضرورت ہے، تاکہ معاشرہ لڑکیوں کو ہی سمجھوتا کرنے، ظلم سہنے اور پھر بھی بندھن میں بندھے رہنے پر مجبور کرنے کی روایت ترک کر دے۔
آخر میں ایک میری بات بھی سن لو۔ دیکھو اپنی بیٹی اور اپنے بہتر مستقبل اور گھریلو تشدد کے خلاف تم بھی مارچ میں نکلی تھی۔ کیا فائدہ ہوا؟ نہیں نا۔ سنو یہ سوچنا سمجھنا، پڑھنا لکھنا، عورتوں کو بھی انسان ہی سمجھنا، معاشرے کو زندگی کے قابل بنانے کی خواہش رکھنا لڑکیوں کا کام نہیں ہے۔
مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے مجھے تو معلوم نہیں، لیکن اگر کوئی دوسرے جنم جیسی چیز بھی ہوتی ہے تو کوشش کرنا کہ اگلے جنم میں تم عورت نہیں، مرد بن کر دنیا میں آنا۔