ایدھی کے مداح صومالی باشندے کی ایمبولینس سروس ’آمین‘
10 اپریل 2017تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی رپوٹ کے مطابق عادم نے یہ وین دس سال قبل خریدی تھی۔ آج عادم کے پاس کئی ایمبولنسیں ہیں۔ اپنے لال رنگ اور سائرن کے باعث یہ گاڑیاں جنگ زدہ موغادیشو کی گلیوں میں پہلی نظر میں پہچانی جاتی ہیں۔ عادم کی ’آمین‘ نامی ایمبولنس سروس یہ پیغام دیتی ہے کہ کچھ کاروباری شخصیات اور طلبہ کی جانب سے امداد سے کیسے شام، صومالیہ اور پاکستان جیسے ممالک میں عام شہری ہنگامی حالات میں افراد کی زندگیوں کو بچانے کا کام کر سکتے ہیں جو غالباﹰ حکومتوں کی ترجیحات میں نہیں۔
چالیس سالہ عادم نے تھامس روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا، ’’ لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھنا بہت مشکل تھا، ہمیں کچھ کرنا تھا۔‘‘عادم نے سن 2010 میں ایک بم دھماکے میں اپنے بڑے بھائی کو کھو دیا تھا۔ صومالیہ سن 1991 سے تنازعات کا شکار ہے جہاں مختلف قبائل کے سرداروں نے پہلے آمر حکمران کا تختہ الٹا اور پھر ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار ہوگئے۔ اب القاعدہ سے جڑے دہشت گرد اکثر ملک میں بم دھماکے کر کے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ کمزور حکومت کو گرانا چاہتے ہیں۔
عادم نے سن 2005 میں پاکستان سے ڈگری حاصل کی تھی۔ یہاں اس کی ملاقات عالمی شہرت یافتہ سماجی کارکن عبدالستار ایدھی سے ہوئی تھی۔ عادم نوبل انعام کے لیے نامزد عبدالستار ایدھی سے انتہائی متاثر ہوا تھا۔ ایدھی نے ملک بھر میں ایمبولنس نٹ ورک قائم کیا ہوا تھا جو عادم کے لیے ایک متاثر کن ماڈل ثابت ہوا۔ عادم کا کہنا ہے،’’ مجھے ایدھی نے بہت متاثر کیا تھا۔‘‘
کچھ سماجی کارکن عادم کے کام کا موازنہ شام کے فلاحی ادارے ’وائٹ ہیلمٹس‘ سے بھی کرتے ہیں۔ شام میں بمباری کے دوران اس ادارے کے امدادی کام کو دنیا بھر میں سراہا گیا ہے تاہم زیادہ تر صومالی شہری آمین کا موازنہ کسی دوسری تنظیم سے نہیں کرتے بلکہ اس کے کارکنان کو اپنے ملک ہی کا ہیرو ٹھہراتے ہیں۔
اس ادارے کے پاس ایسی استعمال شدہ دس ایمبولنسیں ہیں جنہیں دبئی سے درآمد کیا گیا تھا۔ ان میں بنیادی فرسٹ ایڈ کا سامان موجود ہے، اسٹریچر بھی ہے اور ایک بنچ بھی۔ اس ادارے کا کل خرچ ماہانہ 12000 ڈالر ہے۔ ادارے کو کچھ بین الاقوامی اداروں کی مدد بھی مل جاتی ہے۔ عالمی ادارہء صحت نے عادم کی تنظیم کو دوگاڑیاں بطور امداد دیں جبکہ فلاحی تنظیم ریڈ کراس نے اس کے طبی عملے کو فرسٹ ایڈ کی تربیت فراہم کی تھی۔
گزشتہ برس صومالیہ میں بم حملوں میں 723 افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ ان ہلاکتوں کی تعداد کہیں زیادہ ہوتی اگر متاثرین کو آمین ایمبولنس سروس کی سہولت میسر نہ ہوتی۔ ہسپتال میں داخل تیس سالہ علی نور نے تھامس روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا،’’ اگر آمین ایمبولنس سروس صومالیہ میں نہ ہوتی تو میں زندہ نہ ہوتا۔‘‘ آمین کی ایک ایمبولنس کے ڈرائیور نے نور کو اسی ماہ ایک بم حملے کے فوری بعد ہسپتال پنہچایا تھا۔ اس حملے میں علی کی ٹانگوں پر شدید زخم آئے تھے۔
عادم اپنی ایمبولنس سروس کا نٹ ورک صومالیہ کے دارالحکومت کے علاوہ دیگر شہروں تک بڑھانا چاہتا ہے لیکن اُسے وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔ گزشتہ برس صومالیہ کے 246 ملین ڈالر کے بجٹ میں سے صحت کے شعبے کے لیے محض ایک ملین ڈالر جبکہ صدر اور وزیراعظم کے دفاتر کے لیے پانچ پانچ ملین ڈالر کا بجٹ مختص کیا گیا تھا۔ صومالیہ کی وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل نے تھامس روئٹرز فاؤنڈیشن کوبتایا،’’ ہمارے پاس صحت کے شعبے میں ایمرجنسی صورتحال کے لیے کوئی بجٹ نہیں ہے۔‘‘
آمین کے کارکنان کا کہنا ہے کہ وہ سماجی خدمت پیسے کے لیے نہیں کرتے۔ اس ایمبولنس سروس کے ایک کارکن محمد کا کہنا ہے،’’ جو لوگ مر رہے ہیں وہ ہماری بیویاں، ہمارے بچے اور ہمارے بھائی ہیں۔‘‘