عراقی وزیراعظم ایران اور سعودی عرب کو قریب لانے کے لیے کوشاں
27 جون 2022ایران کے سرکاری ٹی وی کے مطابق عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے سعودی عرب کا دورہ کرنے اور وہاں کے عملاً حکمران ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات کے ایک روز بعد اتوار 26 جون کو تہران میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات کی ہے۔
کاظمی نے رئیسی کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ''ہم نے خطے میں قیام امن اور سلامتی کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے ان اہم مسائل کے بارے میں بات کی جن کا خطے کے اقوام کو سامنا ہے اور اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ یمنی جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی حمایت کریں گے۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے عراقی وزیر اعظم کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان گہرے تعلقات ہیں، جس سے وسیع تعاون میں مدد ملتی ہے۔
ایرانی خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق رئیسی نے یمن میں جاری جنگ کے حوالے سے کہا، ''ہم بلا شبہ اس جنگ کے تسلسل کو لاحاصل سمجھتے ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ اس جنگ سے یمنی عوام کے دکھ درد میں اضافے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا، لہٰذا اس جنگ کا جلد از جلد خاتمہ ہونا چاہیے۔‘‘
کاظمی اور محمد بن سلمان میں ملاقات
عراقی وزیر اعظم الکاظمی نے تہران آنے سے ایک روز قبل جدہ میں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات کی تھی۔
سعودی عرب کی خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق میٹنگ میں ان دونوں رہنماؤں نے دونوں برادر ملکوں کے درمیان دو طرفہ تعلقات اور مشترکہ تعاون کے شعبوں کا جائزہ لیا اور علاقائی سلامتی اور استحکام کی حمایت پر زور دیا۔
کاظمی کا یہ دورہ ایسے وقت پر ہوا ہے جب مغربی رہنما یوکرین اور روس کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے تیل اور گیس سے مالامال ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ یورپی یونین خارجہ پالیسی کے سربراہ یوزیپ بوریل بھی جمعے کے روز تہران میں تھے جہاں انہوں نے اعلان کیا کہ ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے تعطل کی شکار بات چیت اگلے چند دنوں میں دوبارہ شروع ہوجائے گی۔
ادھر امریکی صدر جو بائیڈن بھی اگلے ہفتے ریاض جانے والے ہیں۔ حالانکہ انہوں نے اپنے انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ ترکی میں سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی وجہ سے وہ سعودی شاہی خاندان سے خود کو دور رکھیں گے۔
ایران اور سعودی عرب کے مابین کشیدگی
ایران اور سعودی عرب ایک عرصے سے علاقائی حریف سمجھے جاتے ہیں۔ سن 2016ء میں جب سعودی عرب نے شیعہ عالم دین نمر النمر کو پھانسی دی تھی تو اس کے خلاف مظاہرین نے ایران میں سعودی عرب کے دو سفارتی مشن پر حملے کر دیے تھے جس کے بعد دونوں ملکوں کے مابین سفارتی تعلقات ختم ہوگئے تھے۔
دونوں طاقتیں یمن میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ بالواسطہ طورپر نبرد آزما ہیں۔ سعودی عرب معزول یمنی حکومت کی حمایت کرتا ہے جب کہ ایران حوثی باغیوں کی حمایت کررہا ہے۔
تاہم پچھلے دنوں جنگ کے بندی کے بعد یمن میں، جو اس وقت دنیا کے بدترین انسانی بحران سے دوچار ملکوں میں سے ایک ہے، تصادم کے خاتمے کی امیدیں پیدا ہو گئی ہیں۔
بغداد نے گزشتہ برس بھی تہران اور ریاض کے درمیان کشیدگی کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن تقریباً 40 شیعہ شہریوں کو پھانسی دیے جانے کی وجہ سے یہ کوشش ناکام ہوگئی۔
ج ا/ا ب ا (اے پی، روئٹرز)