ایران اور عالمی جوہری ادارے میں ابھی تک کوئی رابطہ نہیں
13 نومبر 2021بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے سربراہ رافیل گروسی نے 12 اکتوبر جمعے کے روز اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ایران کی نئی حکومت نے اپنی جوہری سرگرمیوں کے حوالے سے کئی تصفیہ طلب امور پر بات چیت کے لیے ادارے سے ابھی تک رابطہ تک نہیں کیا ہے۔
آئی اے ای اے کے ڈائڑیکٹر جنرل رافیل گروسی کا کہنا تھا کہ یہ کتنی ’’حیرت انگيز بات ہے‘‘ کہ جون کے انتخابات میں کامیابی کے بعد سے صدر ابراہیم رئیسی کی حکومت نے ایجنسی سے کوئی رابطہ تک نہیں کیا۔ انہوں نے صحافیوں سے بات چيت کے دوران کہا، ’’تقریبا پانچ ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ۔۔ میرا اس حکومت سے کوئی رابطہ تک نہیں ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’میرے خیال سے ہمارا یہ رابطہ بہت پہلے ہی ہو جانا چاہیے تھا۔ ان امور کی ایک طویل فہرست ہے جن پر ہمیں بات کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ آئی اے ای اے کے سربراہ نے البتہ کہا کہ اس دوران ایران کے جوہری توانائی کے نئے سربراہ محمد اسلامی کے ساتھ کبھی کبھی ’’تکنیکی سطح کی بات چیت‘‘ ضرور ہوئی ہے۔
بین الاقومی ادارے کے سربراہ رافیل گروسی کو 22 نومبر کے روز ادارے کے بورڈ آف گورنرز کی اگلی میٹنگ سے قبل ایران کا دورہ کرنے کی توقع تھی تاہم وہ اب بھی اس سلسلے میں ایرانی دعوت کے منتظر ہیں۔
ایران کی آئی اے ای اے کی نگرانی پر پابندی
جوہری امور سے متعلق عالمی ادارہ ایران کے جواہری پروگرام کی نگرانی کیا کرتا تھا تاہم حالیہ مہینوں میں ایران نے جوہری سرگرمیوں کی مکمل نگرانی کے عمل کو بھی روک دیا تھا۔ اسی وجہ سے رافیل گروسی نے ماہ ستمبر میں تہران کا دورہ کیا تھا تاکہ وہ اس معاملے پر اعلیٰ ایرانی حکام سے بات چیت کر سکیں۔
ان کے دورہ تہران کے بعد ہی ادارے نے کہا تھا کہ پہلے سے طے شدہ معاہدے کے باوجود اسے سینٹری فیوج پرزے تیار کرنے والی ورکشاپ تک جو ’’ناگزیر رسائی‘‘ حاصل تھی، ایرانی حکام نے اب وہ بھی دینے سے منع کر دیا ہے، جبکہ ادارہ وہاں نصب کیمروں سمیت نگرانی کے دیگر آلات تک رسائی چاہتا تھا۔
جوہری معاہدے کی بحالی کے امکانات
آئندہ 29 نومبر کو دنیا کے سفارت کار اس توقع کے ساتھ ویانا میں ایران کے جوہری معاہدے پر دوبارہ بات چيت شروع کرنے والے ہیں کہ سن 2015 کا یہ معاہدہ دوبارہ بحال ہو سکے گا۔ یہ بات چيت پہلے اسی برس اپریل میں شروع ہوئی تھی تاہم جون سے تعطل کا شکار ہے۔
امریکا، چین، روس، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایران کے ساتھ سن 2015 میں ایک جوہری معاہدہ کیا تھا، اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما نے اس میں اہم رول ادا کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت ایران کو اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنا تھا جبکہ اس کے بدلے میں امریکا اور دیگر ممالک کو ایران پر عائد سخت ترین پابندیوں کو ختم کرنا تھا۔
تاہم سن 2018 میں سابق امریکی صدر ٹرمپ نے اس معاہدے سے امریکا کو یکطرفہ طور پر الگ کر لیا اور ایران پر دوبارہ سخت ترین پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ جواباً ایران نے بھی معاہدے کی پاسداری نہیں کی۔ گزشتہ برس جب جو بائیڈن صدر بنے تو انہوں نے اس معاہدے میں امریکا کے دوبارہ شامل ہونے کی بات کہی اور پھر مذاکرات شروع ہوئے۔
جوہری معاہدے سے متعلق ایران کے چیف مذاکرات کار علی باقری کنی نے تین نومبر بدھ کے روز اعلان کیا تھا کہ جوہری معاہدے کی بحالی کے مقصد سے بات چیت کے لیے ان کی حکومت نے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں آئندہ 29 نومبر کو ملاقات کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔
ص ز/ ع ت (اے ایف پی، ڈی پی اے)