ایران جوہری مذاکرات ختم، یورپی یونین کا 'حتمی مسودہ' زیرغور
9 اگست 2022ایران، برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور امریکہ کے درمیان سن 2015 میں مشترکہ جامع ایکشن پلان منصوبہ (جے سی پی او اے) کے نام سے معروف ایران جوہری معاہدہ ہوا تھا۔ اس معاہدے میں ایران کے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے عوض اس کے خلاف عائد پابندیوں میں نرمی دی گئی تھی۔ لیکن سن 2018 میں واشنگٹن نے خود کو اس سے یک طرفہ طور پر الگ کرلیا جس کے بعد ایران نے بھی اپنی جوہری سرگرمیاں کافی تیز کردیں۔
جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے گزشتہ کئی ماہ سے ویانا میں بات چیت ہو رہی تھی، جو پیر کے روز مکمل ہو گئی۔ اس آخری دور میں چار روز تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد یورپی یونین نے ایک ’حتمی مسودہ‘ پیش کیا۔ جس کے بعد ایران اور دیگر ملکوں کے سفارت کار اپنے اپنے ملکوں کو واپس لوٹ گئے، جہا ں وہ اس پر مزید غور و خوض کریں گے۔
ایرانی خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق ایران کے اعلیٰ جوہری مذاکرات کار علی باقری کنی صلاح و مشورے کے لیے تہران لوٹ آئے ہیں۔
نئے مسودے کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوسیپ بوریل نے کہا کہ "جو بات چیت ہم کرسکتے تھے، اسے کرنے کے بعد ہم نے حتمی مسودہ پیش کر دیا ہے۔"
روسی سفیر میخائل الیانوف کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کی طرف سے پیش کردہ مسودے میں تہران کو اس کے جوہری پروگراموں کو محدود کرنے کے بدلے میں اس کے خلاف عائد پابندیوں میں نرمی کی بات کہی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب مذاکرات کے فریقین کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ یہ مسودہ انہیں قابل قبول ہے یا نہیں۔ "اگر اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا تو جوہری معاہدہ بحال ہوجائے گا۔"
تاہم ایرانی وزارت خارجہ کے عہدیدار کے حوالے سے ایرانی خبر رساں ایجنسی نے بتایا کہ تہران فی الحال اس مرحلے میں نہیں ہے کہ وہ معاہدے کو حتمی شکل دینے کے حوالے سے کچھ کہہ سکے۔
ایرانی عہدیدار نے مزید کہا کہ ایران "تہران میں مزید غور و خوض اور صلاح و مشورے کے بعد اپنے اضافی خیالات اور تحفظات سے آگاہ کرے گا۔"
مذاکرات میں تعطل
جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے غیر رسمی بات چیت کا سلسلہ کئی ماہ تک تعطل کا شکار رہنے کے بعد گزشتہ ہفتے ویانا میں شروع ہوا تھا۔ بات چیت کی ابتدا اپریل 2021 میں ہوئی تھی تاہم رواں برس مارچ میں یہ تعطل کا شکار ہوگیا تھا۔
ایک اہم متنازع نقطہ ایران کے خلاف عائد ان تمام پابندیوں کو ہٹانے کے حوالے سے تھا جو سن 2018 میں جوہری معاہدے سے واشنگٹن کے یک طرفہ طورپر الگ ہوجانے کے بعد امریکہ نے تہران پر دوبارہ نافذ کردی تھیں۔
میڈیا رپورٹوں میں بتایا گیا تھا کہ مذاکرات میں تعطل کی ایک وجہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی جانب سے تفتیش کے حوالے سے بھی تھی۔
اقوام متحدہ کی اس جوہری ایجنسی نے پہلے سے غیر اعلانیہ تین مقامات پر افزودہ یورینیم کے نشانات کی دریافت کی مناسب وضاحت کرنے میں ناکام رہنے پر گزشتہ جون میں ایران کی سرزنش کی تھی۔
ایران نے مطالبہ کیا کہ آئی اے ای اے کو ان سوالات سے متعلق امور کو پہلے مکمل طورپر حل کرنا چاہئے۔ تہران کا دیرینہ موقف ہے کہ وہ جوہری ہتھیار تیار کرنا نہیں چاہتا اور اس کی جوہری سرگرمیاں صرف پرامن مقاصد کے لیے ہیں۔
ج ا/ ص ز (اے ایف پی، ڈی پی اے، اے پی، روئٹرز)