ایران جوہری مذاکرات فیصلہ کن مرحلے میں
17 فروری 2022امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ آئندہ چند دنوں میں پتہ چل جائے گا کہ آیا مشترکہ جامع منصوبہ عمل یا ایران جوہری معاہدہ بحال ہوسکے گا۔ انہوں نے بدھ کے روز واشنگٹن میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ گو یہ ایک پیچیدہ مذاکراتی عمل ہے لیکن ہمارے تجزیے کے مطابق ہم بات چیت کے بالکل آخری مرحلے میں پہنچ گئے ہیں۔
انہوں نے کہا، " یہ حقیقتاً وہ فیصلہ کن گھڑی ہے، جس کے دوران ہم یہ تعین کرنے کے قابل ہو جائیں گے کہ جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کی تعمیل میں باہمی واپسی کا آغاز ہو رہا ہے یا ایسا نہیں ہے۔"
نیڈ پرائس جس وقت واشنگٹن میں یہ باتیں کہہ رہے تھے تقریباً اسی دوران ویانا میں جاری جوہری مذاکرات میں ایران کے اعلیٰ مذاکرات کار علی باقر کنی نے ایک ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا، "ہفتوں سے جاری سنجیدہ بات چیت کے بعد ہم ایک معاہدے کے پہلے سے کہیں زیادہ قریب ہیں۔ جب تک ہر چیز پر اتفاق نہیں ہو جاتا تب تک کسی چیز پر اتفاق نہیں ہوتا۔"
علی باقر کنی نے مغربی طاقتوں سے مطالبہ کیا، "وہ حقیقت پسند بنیں، ہٹ دھرمی سے گریز کریں اور گزشتہ چار سال سے حاصل ہونے والے سبق سے سیکھنے کی کوشش کریں۔ یہ ان کے سنجیدہ فیصلوں کا وقت ہے۔"
معاہدہ نہ ہوا تو ایک بڑے بحران کا خطرہ
فرانس نے کہا ہے کہ ایران کے پاس معاہدے کو قبول کرنے کے لیے صرف چند دن باقی ہیں اور اسے ہی فیصلہ کرنا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں ایف لودریاں نے بدھ کے روز ملکی سینیٹ کو بتایا، "یہ ہفتوں کی نہیں بلکہ دنوں کی بات ہے اور یہ کہ مذاکراتی عمل میں اب 'سچائی کا لمحہ ' آن پہنچا ہے۔ ایرانیوں کو سیاسی فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے پاس بہت واضح انتخاب ہے۔''
انہوں نے کہا، "یا تو وہ (ایرانی) آنے والے دنوں میں ایک سنگین بحران کو جنم دیں گے یا وہ ایک ایسا معاہدہ قبول کر لیں گے جو تمام فریقین خصوصاً تہران کے مفادات کا تحفظ کرے۔"
انہوں نے خبردار کیا کہ وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے کیونکہ ایران 2015 کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی جوہری سرگرمیاں تیز کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جتنی زیادہ تاخیر ہوتی جا رہی ہے اتنا ہی ایران اپنی جوہری سرگرمیوں کو تیز کرتا جا رہا ہے۔ اگر معاہدہ نہ ہوا تو ایک بڑا بحران جنم لے گا۔
اس ماہ کے اوائل میں ایران جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے ویانا میں جاری مذاکرات کا آٹھواں دور شروع ہواتھا۔
اس کا مقصد 2015 کے ایران جوہری معاہدے کو بحال کرنا ہے، جس سے 2018 میں ٹرمپ انتظامیہ نے یک طرفہ طور پر امریکا کو نکال کر ایران کے خلاف دوبارہ سخت ترین پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
مذاکرات میں شامل چین کے نمائندے کا کہنا تھا کہ ایران امریکی نقطہ نظر کے جواب میں تمام متبادل میز پر رکھ کر تعمیری کام کر رہا ہے۔
چینی مذاکرات کار نے کہا، " انہوں (ایران) نے نہ صرف سیدھا طریقہ اپنایا ہے بلکہ کچھ دو اور کچھ لو کی بنیا د پر سیاسی فیصلہ بھی کیا ہے۔"
ایران نے کیا کہا؟
ایران نے امریکی کانگریس پر زور دیا کہ وہ ایک 'سیاسی بیان' جاری کرے، جس سے اندازہ ہو کہ واشنگٹن معاہدے کی بحالی کے لیے ویانا مذاکرات میں ممکنہ معاہدے کے لیے پرعزم ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ اصولی طور پر ایران میں رائے عامہ کسی سربراہ مملکت کے خالی الفاظ کو ضمانت کے طور پر قبول نہیں کر سکتی۔
انہوں نے کہا، "یہ بالکل واضح ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے اور ان اقدامات کی تصدیق کیسے کی جائے گی، لیکن ہم بنیادی طور پر امریکا کی طرف سے ضمانتوں کے بارے میں فکر مند ہیں۔ اگر واشنگٹن کے ارادے حقیقی ہیں تو اسے براہ راست بات چیت اور رابطے ہونے سے پہلے کچھ عملی اور ٹھوس اقدامات کرنا چاہییں۔"
ایرانی وزیر خارجہ نے بتایا کہ انہوں نے ایرانی مذاکرات کاروں سے کہا ہے کہ وہ مغربی فریقین کو یہ تجویز پیش کریں کہ کم از کم ان کی پارلیمنٹ یا پارلیمنٹ کے اسپیکر، بشمول امریکی کانگریس، سیاسی بیان کی صورت میں معاہدے سے اپنی وابستگی کا اعلان کر سکتے ہیں اور جوہری معاہدے پر عمل درآمد کی طرف واپس آ سکتے ہیں۔ امیر عبداللہیان کا کہنا تھا، "ایران کا مطالبہ ریاضی کے فارمولے کی طرح واضح ہے۔"
ج ا/ ع ب (روئٹرز، اے ایف پی)