ایران جوہری معائنہ کاروں کو فوراً واپس بلائے، یورپی یونین
18 ستمبر 2023ایرانی میڈیا اور مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ تہران نے اقوام متحدہ کے ادارے ایجنسی انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے آٹھ معائنہ کاروں کا ملک سے خارج کردیا ہے۔ یہ تمام معائنہ کار جرمنی اور فرانس سے تعلق رکھتے ہیں۔
یورپی یونین نے تہران کی جانب سے آئی اے ای اے کے کئی اراکان کی منظوری کو ختم کرکے انہیں واپس بھیجنے کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔ اس نے تہران سے اپنا فیصلہ واپس لینے اور ان معائنہ کاروں کو فوراً واپس بلانے کی اپیل کی ہے۔
آئی اے ای اے نے ہفتے کے روز کہا تھا کہ ان کی ٹیم کے کچھ ارکان کو اب ایران کے جوہری ہتھیاروں کا معائنہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
ایران: امریکی ہتھیاروں کی پہنچ سے باہر جوہری تنصیب کی تعمیر
یورپی یونین، ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان سن 2015 میں ایک معاہدہ ہوا تھا جسے مشترکہ جامع منصوبہ عمل (جی سی پی او اے) کہا جاتا ہے۔ یورپی یونین نے کہا کہ وہ معائنہ کاروں کی منظوری کو ختم کرنے کے فیصلے سے "انتہائی فکر مند" ہے۔
جے سی پی او اے پر شدید اثر پڑے گا
یورپی یونین کے ترجمان نے کہا کہ "خاص طورپر تشویش ناک بات یہ ہے کہ ایجنسی کی تصدیقی سرگرمیوں کو چلانے کی صلاحیت پر اس فیصلے کا براہ راست اور شدید اثر پڑے گا، جس میں مشترکہ جامع منصوبہ عمل (جے سی پی او اے) کی نگرانی بھی شامل ہے۔"
'ایران جوہری بم کے لیے بارہ دن میں انشقاقی مادہ تیار کرسکتا ہے'، امریکہ
ترجمان نے مزید کہا،"یورپی یونین ایران پر زور دیتی ہے کہ وہ بلاتاخیر اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔"
بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے کیا کہا؟
آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی نے تہران کے اقدام کو"غیر متناسب اور غیر معمولی" قرار دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ "یہ فیصلہ ایران میں ایجنسی کی تصدیقی سرگرمیوں کی معمول کی منصوبہ بندی اور کارروائیوں کو متاثر کرتا ہے اور اس تعاون کے واضح خلاف ہے جو ایجنسی اور ایران کے درمیان ہونا چاہئے۔"
گروسی نے "آئی اے ای اے کے ایران میں اپنے معائنے کو مؤثر طریقے سے انجام دینے کی صلاحیت میں رکاوٹ ڈالنے "پر تہران کی نکتہ چینی کی۔
جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے امریکہ ٹھوس ضمانت دے، ایران
انہوں نے کہا، "آج کے فیصلے سے تہران نے ایران کے لیے نامزد ایجنسی کے سب سے تجربہ کار معائنہ کاروں کے تقریباً ایک تہائی کو ہٹا دیا ہے۔"
مغرب سے 'سیاسی زیادتیوں' کا انتقام
ایران کی وزارت خارجہ نے کہا کہ یہ فیصلہ جے سی پی او اے کے تمام اہم کرداروں، امریکہ فرانس، جرمنی اور برطانیہ کی جانب سے "سیاسی زیادتیوں "کے جواب میں کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ سن 2015 میں دنیا کی بڑی طاقتوں نے ایران کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت تہران سخت اقتصادی پابندیوں سے راحت کے بدلے اپنے جوہری پروگرام کو روکے گا۔ لیکن سن 2018 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے نکل گئے اور دوبارہ پابندیاں عائد کردیں۔ اس سے ناراض ہوکر تہران اپنے جوہری پروگرام میں تیزی لے آیا لیکن وہ جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت میں اضافہ کرنے کے عزائم کی تردید بھی کرتا رہا۔
اس معاہدے کو بحال کرنے کی کوششیں اب تک بے نتیجہ رہی ہیں۔
ج ا/ ص ز (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)