ایران، طالبات کو زہر دینے کے معاملے میں پہلی گرفتاریاں
7 مارچ 2023ایران کے نائب وزیر داخلہ مجید میر احمدی نے منگل کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ اسکول کی طالبات کو زہر دینے کے معاملے میں پہلی گرفتاریاں عمل میں لائی جا چکی ہیں۔ پارلیمانی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ اب تک 5,000 سے زائد طالب علموں کو اس طرح زہر دیا جا چکا ہے۔
ایران کے سرکاری ٹی وی سے بات کرتے ہوئے احمدی کا کہنا تھا کہ یہ گرفتاریاں انٹیلیجنس ایجنسیوں کو موصول ہوئی معلومات اور ان کے تحقیقاتی اقدامات کی بنیاد پر پانچ صوبوں میں عمل میں لائی گئی ہیں۔
ماجد میر احمدی نے مزید کہا کہ متعلقہ ادارے اس معاملے کی مکمل تحقیقات کر رہے ہیں۔
نومبر کے آخر سے لے کر اب تک ایران بھر میں متعدد اسکولوں میں طالبات کو گیس کے ذریعےزہر دینے کے کئی واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ طالبات نے ''ناخوشگوار‘‘ یا '' انجانی‘‘ بو محسوس کرنے کے بعد سانس لینے میں تکلیف، متلی اور چکر جیسی علامات کی اطلاع دی تھی، جس سے والدین میں خوف پھیل گیا ہے اور انہوں نے حکام سے کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔ متاثرہ طالبات میں سے کئی کا ہسپتالوں میں علاج بھی کیا جا چکا ہے۔
پیر کو اس حوالے سے پارلیمانی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے رکن محمد حسن آصفری نے ایرانی خبر رساں ادارے اسنا کو دیے گئے ایک بیان میں کہا تھا کہ ان واقعات سے ایران کے کل 31 صوبوں میں سے 25 صوبے اور تقریباﹰ 230 اسکول متاثر ہوئے ہیں اور اب تک 5,000 سے زائد طالبات کو زہر دیا جا چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان واقعات کی وجوہات اور طالب علموں کو دیے جانے والے زہر کی شناخت کے لیے مختلف ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں لیکن اس زہر سے متعلق اب تک کوئی خاص معلومات حاصل نہیں کی جا سکی ہیں۔
پیر ہی کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے ایک بیان میں کہا کہ حالیہ مہینوں میں اسکول کی طالبات کو زہر دے کر ہلاک کرنے کی کوشش کرنے والوں کو ''سخت سزا‘‘ کا سامنا کرنا چاہیے۔ خامنہ ای نے اس پراسرار زہر کے بارے میں اپنے پہلے عوامی تبصرے میں کہا تھا، ''اگر زہر دینا ثابت ہو جاتا ہے تو یہ ایک ناقابل معافی جرم ہو گا اور مجرموں کو سخت سزائیں دی جانا چاہئیں۔‘‘
دریں اثناء ایرانی عدلیہ کے سربراہ غلام حسین محسنی نے کہا تھا کہ اسکول کی طالبات کو زہر دینے کے الزام میں گرفتار ہونے والے افراد پر ''زمین پر فساد‘‘ پھیلانے کا الزام لگایا جائے گا۔ ایک ایسا الزام، جس کی سزا موت ہو گی۔
طالبات کو زہر دینے کے واقعات کے بعد ایرانی عوام میں غصے کی ایک نئی لہر پائی جاتی ہے اور وہ حکام سے کاروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ان واقعات پر بین الاقوامی سطح پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور مغربی ممالک نے اس معاملے کی آزادانہ تحقیقات پر زور دیا ہے، بالخصوص اس تناظر میں کہ طالبات کو زہر دینے کا پہلا واقعہ اس وقت سامنے آیا تھا جب ایک ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کی حراست میں موت کے بعد سے ملک بھر میں جاری حکومت مخالف مظاہرے ختم نہیں ہوئے تھے۔
م ا / ع ا (اے ایف پی)