ایران میں خسرو شیریں کی داستان قابل اعتراض
16 اگست 2011خسرو اور شیریں نامی کرداروں کا یہ قصہ ایرانی مصنف نظامی گنجوی نے 1177ء میں تحریر کیا تھا جو 1180ء میں شائع ہوا اور اس کے بعد سے یہ فارسی ادب کا ناگزیر حصہ بن چکا ہے۔
مگر ایران میں کتابوں کی اشاعت کی اجازت دینے والے نظریاتی نگران ادارے یعنی وزارت فرہنگ و ارشادِ اسلامی نے اس رومانوی داستان کی اشاعت کے 831 سال بعد فیصلہ کیا ہے کہ کتاب کے بعض حصوں پر پابندی عائد کرنے کی ضرورت ہے۔
خسرو اور شیریں کے قصے کو شائع کرنے والے ادارے پیدائش پبلیکیشنز کی ثقافتی ڈائریکٹر فریبا نباتی کا کہنا ہے، ’’اس ملک میں ثقافتی تخلیقات کے خلاف اس قسم کے فیصلوں کے بعد آپ انتہائی دل شکستہ ہو جاتے ہیں۔‘‘
نباتی کے بقول کئی سالوں تک کتاب کی اشاعت کے بعد ان کی کمپنی نے آٹھویں ایڈیشن کا ڈیزائن تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا اور انہوں نے منظوری کے لیے اسے وزارت کے پاس بھجوایا۔
اشاعت کنندہ ادارے کو یہ جان کر سخت حیرت ہوئی جب وزارت نے کہا کہ کتاب کے بعض حصوں پر پابندی عائد کرنے کی ضرورت ہے۔ وزارت کے نزدیک کتاب میں شامل بعض جملے مثلاﹰ 'نشے میں شراب کا قطرہ نہ چھوڑنا'، 'آؤ کہیں ایسی جگہ چلیں جہاں ہماری تنہائی میں کوئی مخل نہ ہو'، اور 'ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنا' قابل اعتراض مواد کے زمرے میں آتے ہیں۔
ایران میں 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد ادب میں مرد و خواتین کے جسمانی اختلاط سے متعلق کسی بھی قسم کے ذکر کو مخرب الاخلاق تصور کیا جاتا ہے۔ ملک میں شراب نوشی پر پابندی عائد ہے اور اشاروں کنایوں میں بھی شراب اور اس کے نشے میں مدہوش ہونے کا ذکر ممنوع ہے۔
نظامی گنجوی (1141-1209) کو فارسی ادب کا ایک عظیم ترین رومانی شاعر تصور کیا جاتا ہے اور ان کے قصے خسرو اور شیریں اور لیلٰی مجنوں کی شہرت چہار دانگ عالم میں ہے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: شادی خان سیف