ایران نے عراق میں ’وسیع تر اثر و رسوخ‘ کیسے حاصل کیا؟
18 نومبر 2019ایران کے اپنے ہمسایہ ملک عراق میں اثر و رسوخ کے حوالے سے خفیہ دستاویزات پر مشتمل ایک رپورٹ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز میں پیر کے روز شائع کی۔ اس رپورٹ کے مطابق اس اخبار نے تقریباﹰ سات سو صفحات پر مشتمل خفیہ معلومات کا جائزہ لیا، جن میں سے زیادہ تر سن دو ہزار چودہ سے لے کر سن دو ہزار پندرہ تک کے درمیان ایرانی وزارت انٹیلیجنس اینڈ سکیورٹی کی جانب سے تیار کی گئی تھیں۔
اخبار نے یہ خفیہ دستاویزات فراہم کرنے والے شخص کا نام اور شناخت ظاہر نہیں کی۔ اس نامعلوم شخص نے نیو یارک ٹائمز کے صحافیوں سے ملاقات کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ اس شخص کا کہنا تھا، ''میں صرف دنیا کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ایران میرے ملک عراق کے ساتھ کیا کر رہا ہے۔‘‘
عراق کے ایران اور امریکا دونوں کے ساتھ ہی قریبی اور پیچیدہ روابط ہیں۔ ایران عراق میں زیادہ سے زیادہ اثر و رسوخ حاصل کرنا چاہتا ہے جبکہ امریکا خطے میں ایران کے کردار کو محدود بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ نیو یارک ٹائمز نے لکھا ہے، ''خفیہ دستاویزات سے اس بات کا تفصیلی اندازہ ہوتا ہے کہ تہران نے کتنے جارحانہ انداز میں خود کو عراقی اُمور میں شامل کرنے کے لیے کام کیا۔‘‘ ان رپورٹوں میں جنرل قاسم سلیمانی کے انوکھے کردار پر بھی بات کی گئی ہے۔
رپورٹوں کے مطابق جنرل سلیمانی ایرانی پاسداران انقلاب کی ایلیٹ 'قدس فورس‘ کے سربراہ ہیں اور عراق میں سیاسی بحران کے دوران انہوں نے تواتر سے عراق کے دورے کرتے ہوئے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ ایران کی قدس فورس بیرون ملک خفیہ کارروائیوں کی ذمہ دار ملکی ایجنسی ہے۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ابھی حالیہ ہفتوں میں بھی جنرل سلیمانی نے بغداد اور نجف میں ان اجلاسوں کی سربراہی کی، جو عراق میں جاری احتجاجی مظاہروں سے متعلق تھے اور جن میں عراقی وزیر اعظم عادل عبدالمہدی کے لیے ملکی سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
ایک خفیہ ایرانی رپورٹ کے مطابق عادل عبدالمہدی سن دو ہزار چودہ میں عراق کے وزیر تیل تھے اور اس دوران ان کے تہران حکومت کے ساتھ 'خصوصی تعلقات‘ تھے۔ عراقی وزیر اعظم کے دفتر نے اس رپورٹ پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
ان رپورٹوں میں عراق کے سابق وزرائے اعظم حیدر العبادی اور ابراہیم الجعفری کے ساتھ ساتھ سابق پارلیمانی اسپیکر سلیم الجبوری کے ایران کے ساتھ خصوصی تعلقات کا حوالہ بھی ملتا ہے۔ نیو یارک ٹائمز کی اس رپورٹ کے مطابق تہران حکومت کے اثر و رسوخ میں اضافہ سن دو ہزار گیارہ کے بعد تیزی سے ہوا، کیوں کہ تب امریکی فوجی عراق چھوڑ گئے تھے۔ تب امریکی خفیہ ایجنسی کے سینکڑوں اہلکاروں کو ملازمت سے فارغ بھی کر دیا گیا تھا اور انہوں نے پیسہ کمانے کے لیے سی آئی اے کے آپریشنز سے متعلق خفیہ معلومات ایران کو فروخت کرنا شروع کر دی تھیں۔
ایک مرتبہ عراقی ملٹری انٹیلیجنس کے ایک افسر نے ایرانی خفیہ اہلکاروں سے ملاقات کے لیے بغداد سے کربلا تک کا سفر بھی کیا۔ اس اہلکار نے تین گھنٹے تک ایک میٹنگ کی اور اپنے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل حاتم المخصوصی کا یہ پیغام پہنچایا، ''عراقی فوج کی ساری انٹیلیجنس کو اپنا ہی سمجھیں۔‘‘
ا ا / م م ( اے ایف پی، روئٹرز)