ایران کی اقتصادی مشکلات کم نہیں ہوئیں
12 جولائی 2016جوہری ڈیل پر ایران میں عام لوگوں نے کھلے عام مسرت کا اظہار کیا تھا اور سبھی کا خیال تھا کہ ایران کی عالمی تنہائی کے علاوہ اسے درپیش اقتصادی مسائل سے چھٹکارا حاصل ہو جائے گا لیکن تقریباً ایک سال بعد ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سب کچھ ابھی تک ادھورا ہے۔ ماہرین کے مطابق امریکی رکاوٹیں ایرانی اقتصادیات کی افزائش میں حائل ہیں۔
کئی پابندیاں بظاہر ختم ہوچکی ہیں لیکن انٹرنیشنل بینکنگ سسٹم ابھی تک ایران کے ساتھ کاروباری معاملات کو آگے بڑھانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ ایران کے اندر صدر حسن روحانی کو بھی ملک کے اندر تنقید کا سامنا ہے کہ اُن کے اعلانات کے مطابق ایرانی اقتصادیات کی ترقی ویسی نہیں سامنے آئی ہے، جیسی وہ بیان کرتے رہے ہیں۔ ان ناقدین میں ایران کا قدامت پسند حلقہ بھی شامل ہے، جو مغرب سے تعلقات کو بہتر بنانے کا مخالف ہے۔
ایک ایرانی سفارت کار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا ایران نے اپنا حصے کا کام مکمل کر دیا ہے، اب رکاوٹیں امریکا کی جانب سے ہیں اور اِس مناسبت سے امریکا کے یورپی حلیف واشنگٹن حکومت پر دباؤ بڑھائیں کہ وہ ایران پر باقی ماندہ پابندیوں کے خاتمے کا اعلان کرے۔ مبصرین بھی اِن پیچیدگیوں کا حل واشنگٹن میں ہی دیکھتے ہیں۔
ایرانی سفارت کار نے یہ بھی کہا کہ امریکا میں بعض سیاستدانوں نے ایرانی جوہری ڈیل کو سمجھا ہے اور نہ ہی اُسے تسلیم کیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ چودہ جولائی سن 2015 کو طے پانے والی ڈیل کے مؤثر ہونے کا اعلان رواں برس جنوری میں اقوام متحدہ اور امریکا کی جانب سے کیا گیا تھا۔ ڈیل مؤثر ہونے کے امریکی اعلان کے باوجود بعض بنیادی پابندیوں کے خاتمے کا واشنگٹن حکومت نے ابھی فیصلہ کرنا ہے۔
معاشی ماہرین کا متفقہ طور پر کہنا ہے کہ ڈیل کے بعد ایران میں ملازمت کرنا آسان ہو گیا ہے لیکن بین الاقوامی سطح پر پائی جانے والی مالی پیچیگیاں بدستور باقی ہیں۔ ڈیل کے مؤثر ہونے کے بعد صدر حسن روحانی کی اگلے تین چار سالوں میں ایران میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے خواب بھی نامکمل دکھائی دے رہے ہیں۔
ایک ایرانی کار ساز کمپنی کے ساتھ فرانسیسی کار میکر ادارے پیژو سِٹروئن نے ایران میں 400 ملین یورو کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا ہے جو حوصلہ افزا تو ہے لیکن یہ ناکافی محسوس کیا گیا ہے۔ تہران کے سیاسی تجزیہ کار عامر محبیان کا کہنا ہے کہ تاریخ نے یہ سبق سکھایا ہے کہ امریکا پر کبھی اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔