ایران کے حمایت یافتہ جنگجوؤں کے خلاف امریکی حملے
28 جون 2021امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کا کہنا ہے کہ 27 جون اتوار کی شام کو اس نے عراق اور شام کے سرحدی علاقوں میں ایرانی حمایت یافتہ مسلح گروپوں کے خلاف عسکری کارروائی کی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں سرگرم جنگجو عراق میں امریکی اہلکاروں اور تنصیبات کے خلاف ڈرون حملوں میں ملوث رہے ہیں اسی لیے جواباً ان کے خلاف فضائی حملے کیے گئے ہیں۔
پینٹا گون کے ترجمان جان کربی کا کہنا تھا کہ صدر جو بائیڈن کے احکامات کے مطابق یہ کارروائی کی گئی ہے۔ جان کربی کا کہنا تھا، "جیسا کہ آج شام کے حملوں سے واضح ہو جاتا ہے، صدر بائیڈن نے پوری طرح سے واضح کر دیا ہے کہ وہ امریکی اہلکاروں کے تحفظ کے لیے کارروائی کریں گے۔"
جان کربی کا کہنا تھا ان ٹھکانوں کو اس لیے منتخب کیا گيا کیونکہ، "ایران کے حمایت یافتہ مسلح گروپ عراق میں امریکی اہلکاروں اور ان سے وابستہ تنصیبات پر حملے کے لیے انہیں مقامات کا استعمال کرتے رہے ہیں۔" ان کا کہنا تھا کہ کتائب حزب اللہ اور کتائب سید الشہداء سمیت کئی دیگر ایرانی حمایت یافتہ مسلح گروپ بھی اپنی سرگرمیوں کے لیے ان ٹھکانوں کا استعمال کرتے رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہامریکی فورسز نے شام میں دو ٹھکانوں اور عراق میں ایک مقام کو نشانہ بنایا جسے جنگجو فوجی آپریشن اور اسلحہ ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان حملوں میں کتنے افراد زخمی یا ہلاک ہوئے ہیں۔
تاہم برطانوی شامی تنظیم 'سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' نے اطلاع دی ہے کہ ان فضائی حملوں میں "کم سے کم پانچ ایرانی حمایت یافتہ عراقی جنگجو ہلاک اور متعدد دیگر زخمی ہوئے ہیں۔" ادھر شام کے سرکاری خبر رساں ادارے ایس اے این اے کا کہنا ہے اس حملے میں ایک بچہ ہلاک اور مزید تین افراد زخمی ہوئے ہیں۔
عراق میں فی الوقت تقریباً ڈھائی ہزار امریکی فورسز تعینات ہیں اور رواں برس ان کی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے اب تک تقریباً 40 حملے ہو چکے ہیں۔ ان حملوں میں سے بیشتر لوجسٹکس کے قافلوں پر بم دھماکے ہیں جبکہ 14 بار راکٹ حملے بھی کیے گئے ہیں۔
اس برس جنوری میں جو بائیڈن کے عہد صدارت سنبھالنے کے بعد سے اس خطے میں ایرانی حمایت یافتہ مسلح گروہوں کے خلاف اس نوعیت کی یہ دوسری بڑی کارروائی ہے۔ اس نوعیت کی پہلی کارروائی فروری میں کی گئی تھی جس میں تقریباً 20 جنگجوؤں کی ہلاکت کی بات کہی گئی تھی۔
یہ حملے ایک ایسے وقت کیے گئے ہیں جب امریکا اپنے یورپی اتحادیوں کی مدد سے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں دوبارہ واپسی کے لیے بات چيت میں مصروف ہے۔ دو روز قبل ہی امریکا اور فرانس نے کہا تھا کہ جوہری معاہدے میں واپسی کے لیے وقت بہت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے۔
تاہم امریکی وویر خارجہ نے اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ جوہری معاہدہ خود امریکا کے مفاد میں ہے اور اس لیے اسے بات چیت میں دلچسپی ہے۔ سن 2015 کے اس جوہری معاہدے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو یکطرفہ طور پر الگ کر لیا تھا تاہم بائیڈن انتظامیہ بعض نئی شرائط کے ساتھ اس میں واپسی چاہتی ہے۔
ص ز/ ج ا ( روئٹرز، اے ایف پی، اے پی)