ایران کے خلاف پابندیاں کامیاب ہوتی نظر نہیں آتیں
10 جون 2010ایران کے خلاف ایک بار پھر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ سلامتی کونسل کے تازہ فیصلے کے مطابق آئندہ ایران بیرونی دُنیا سے ٹینک، جنگی ہیلی کاپٹر، جنگی بحری جہاز اور میزائل نظام نہیں خرید سکے گا۔ اِن پابندیوں میں ایران کے ایٹمی اور میزائل پروگرام میں کسی نہ کسی طرح سے شریک چالیس سے زیادہ کمپنیوں اور اداروں کے لئے سفر کی پابندی، اکاؤنٹس منجمد کرنے اور تجارتی پابندیوں کے نفاذ کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اِن نئی اور سخت تر پابندیوں کا ہدف دراصل ایرانی پاسدارانِ انقلاب کو بنایا گیا ہے، جو ایرانی نظامِ حکومت کی پشت پناہی کرنے والا اہم ترین ادارہ ہیں۔
جہاں ایک طرف یہ بات قابلِ ستائش ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے معاملے میں بین الاقوامی برادری بہت سرگرم جا رہی ہے، وہاں دوسری طرف یہ بات بھی شک و شبے سے خالی نہیں کہ یہ نئی پابندیاں اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہو سکیں گی۔
وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اِس سے پہلے بھی متعدد مرتبہ اِس اسلامی جمہوریہ کے خلاف پابندیاں عائد کر چکی ہے تاہم یہ پابندیاں تہران حکومت کے موقف میں اب تک کوئی لچک پیدا نہیں کر سکیں۔ نہ تو اقتصادی پابندیوں کا کوئی فائدہ ہوا، نہ ہی اوباما کے پیشرو بُش کی حکومت کی طرف سے حکومت کی تبدیلی کی خاموش دھمکی کارگر ثابت ہوئی اور نہ ہی یورپی ممالک کا نرم سفارتی دباؤ ایران کو اپنی پالیسی میں لچک پر آمادہ کر سکا۔
ایرانی صدر احمدی نژاد بدستور یورینیم اپنے ہی ملک میں افزودہ کرنے پر مُصر ہیں اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی IAEA کو ایرانی ایٹمی تنصیبات تک بلا روک ٹوک رسائی کی سہولت دینے سے انکار کر رہے ہیں۔
اب پابندیوں کا شکنجہ کچھ اور زیادہ سختی سے کس دیا گیا ہے۔ ان نئی پابندیوں سے ایرانی عوام پر نہیں بلکہ حکومت کے نمائندوں اور اُس سے فائدہ اٹھانے والے اداروں پر زَد پڑے گی۔ تاہم تہران حکومت نے اِن پابندیوں پر غصے کا اظہار کیا ہے اور اپنے ایٹمی پروگرام پر جاری مذاکرات اور IAEA کے ساتھ ہر طرح کا تعاون ختم کرنے کی دھمکی بھی دے دی ہے۔
پابندیاں دراصل تبھی کارگر ہو سکتی ہیں، جب وہ کسی طویل المدتی لائحہ عمل کا حصہ ہوں تاہم موجودہ حالات میں ایسا دکھائی نہیں دیتا۔ یہ مطلق العنان حکومتوں کا خاصہ ہوتا ہے کہ وہ سیاسی دباؤ کے آگے سر نہیں جھکاتیں، خواہ اُن کے اِس غیر لکچدار موقف کا نتیجہ ملک میں اقتصادی حالات ابتر ہو جانے کی صورت ہی میں برآمد کیوں نہ ہو رہا ہو۔
تہران حکومت یہ بھی جانتی ہے کہ چین اور رُوس اِس بات میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے کہ یہ تنازعہ مزید شدت اختیار کرے۔ اِسی طرح اوباما بھی اپنے پیشرو بُش کے برعکس کم ہی اِس طرف جھکاؤ رکھتے ہوں گے کہ سفارتی دباؤ کے بعد فوجی کارروائی کا حربہ اختیار کیا جائے۔ اسرائیل اور امریکہ کے تناؤ سے عبارت موجودہ تعلقات کے پیشِ نظر یہ امکان بھی کم ہے کہ واشنگٹن حکومت ایرانی ایٹمی تنصیبات کے خلاف کسی اسرائیلی فوجی کارروائی کے لئے گرین سگنل دے دے گی۔
ایرانی صدر احمدی نژاد کو آج کل پابندیوں سے بھی کہیں زیادہ بڑے ایک اور مسئلے کا سامنا ہے۔ ایران میں اپوزیشن کی تحریک کو بے رحمی سے کچل دئے جانے کو جلد ہی ایک برس پورا ہونے والا ہے اور اُس دن سے پہلے ایران میں وہی پُر اَسرار خاموشی طاری ہے، جو کسی طوفان کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہے۔
تہران حکومت ملک میں ہر طرح کی تنقید کو مستقبل میں بھی دبا دینے اور اپوزیشن ارکان کی ہر آواز کو خاموش کرانے کا پختہ عزم کئے ہوئے ہے۔ تاہم ایرانی اپوزیشن کو بھی اِن پابندیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا، اِس وجہ سے بھی کہ سلامتی کونسل کی قرارداد میں ایران میں انسانی حقوق کی صورتِ حال کا ذکر تک شامل نہیں کیا گیا۔
تحریر: ڈانیئل شیشکے وِٹس/ امجد علی
ادارت: مقبول ملک