ایران کے صدارتی انتخابات کے چھ امیدوار
شوریٰ نگہبان نے چھ امیدواروں کو صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی ہے۔ یہ ادارہ امیدواروں کی اسلامی نظام کے ساتھ وفاداری کو جانچتا ہے۔ اس بار صدر کے عہدے کے لیے 1636 امیدواروں نے درخواست دی تھی۔
حسن روحانی
صدر روحانی دوسری مرتبہ اس عہدے کے امیدوار ہیں۔ اپنا اندراج کرواتے ہوئے اُنہوں نے اپنی حکومت کے کئی ایک ’مثبت اقدامات‘ کا ذکر کیا اور تمام ایرانی مرد و زن پر زور دیا کہ وہ ایک بار پھر ’اسلام اور ایران کے لیے‘ ووٹ دیں۔
ابراہیم رئیسی
روحانی کے سب سے مشہور حریف چھپن سالہ عالم ابراہیم رئیسی ہیں، جو قائد انقلاب آیت اللہ خامنہ ای کے ایک قریبی ساتھی رہ چکے ہیں اور انہیں اُن کا جانشین تصور کیا جاتا ہے۔ رئیسی ’قتل عام کے جج‘ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ 1988ء میں اُس کونسل کے رکن تھے، جس نے تقریباً پانچ ہزار سیاسی قیدیوں کو پھانسی دے دی تھی۔
محمد باقر قالیباف
تہران کے قدامت پسند میئر متعدد مرتبہ صدر کے عہدے کے لیے امیدوار رہ چکے ہیں چنانچہ وہ ایران کے بہت سے ووٹرز کے لیے کوئی نیا چہرہ نہیں ہیں۔ چھپن سالہ قالیباف بہت سے اہم عہدوں پر رہ چکے ہیں، جن میں انقلابی گارڈز کی فضائی افواج کے سربراہ کا عہدہ بھی شامل ہے۔
مصطفیٰ میر سلیم
کئی بڑے عہدوں پر متمکن رہنے والے ستّر سالہ میر سلیم کا شمار سخت گیر موقف رکھنے والے سیاستدانوں میں ہوتا ہے اور وہ موتلفه اسلامی نامی اُس جماعت کے سربراہ ہیں، جس میں انتہائی قدامت پسند شخصیات شامل ہیں۔ وہ اُس کمیٹی کے بھی با اثر ترین ارکان میں شامل ہیں، جو پارلیمان اور شوریٰ نگہبان کے درمیان ثالث کا کام انجام دیتی ہے۔ وہ کئی سرکاری عہدوں پر فائض رہ چُکے ہیں۔
اسحاق جہانگیری
ایک اعتدال پسند سیاستدان اور 2013 ء سے ملک کے نائب صدر ہیں. یہ اصلاح پسند صدر خاتمی کے دور میں صنعت کے وزیر بھی تھے. اسحاق جہانگیری ماضی میں کئی اہم انتظامی عہدوں پر فائض رہ چُکے ہیں۔ کچھ سال صوبے اصفہان کے گورنر بھی رہے. ماہرین کی پیش گوئی ہے کہ وہ صدر روحانی کے حق میں اپنی نامزدگی واپس لے لیں گے۔
مصطفےٰ ہاشمی طبا
یہ آزاد امیدواروں میں شامل ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق نہ تو قدامت پسند دھڑے سے ہے، نہ ہی اصلاح پسندوں سے اور نہ ہی اعتدال پسند دھڑے سے۔ ان کے پاس بھی بہت سے عہدے رہ چکے ہیں۔ ہاشمی طبا رفسنجانی اور محمد خاتمی کے دور میں وزیر اور نائب صدر رہ چکے ہیں۔