ایران یمن میں قیام امن کی کوششیں کرے گا، جواد ظریف
15 اپریل 2015
ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے بدھ کے روز کہا کہ تہران حکومت یمن میں سعودی اتحادی افواج کی بمباری رکوانے کے لیے وہاں قیام امن کی کوششیں کرے گی۔ لزبن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ظریف نے کہا، ’’ہم علاقائی سطح پر اہم طاقت ہیں اور ہمارے متعدد ممالک میں فعال بہت سے گروپوں کے ساتھ رابطوں میں ہیں۔ ہم اپنے انہی روابط کو استعمال کرتے ہوئے یمن میں تمام فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کریں گے۔‘‘
جواد ظریف نے مزید کہا، ’’صرف حوثی باغیوں میں ہی ہمارا اثر و رسوخ نہیں بلکہ یمن میں سرگرم بہت سے دیگر گروپوں کے ساتھ بھی ہمارے روابط ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ تہران حکومت اس تناظر میں پاکستان، عمان اور ترکی کے ساتھ مشاورت کر چکی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ پاکستان اور ترکی سعودی عرب کے سنی اتحادی ہیں جبکہ خلیجی ریاستوں میں سے صرف عمان ایک ایسا ملک ہے، جو ایران کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتا ہے۔ ان تینوں ممالک نے ابھی تک سعودی عسکری اتحاد کا حصہ بننے کی حامی نہیں بھری۔
چار نکاتی ایرانی امن منصوبہ
جواد ظریف نے مختلف ممالک کے ساتھ مشاورت کے بعد یمن میں قیام امن کا ایک منصوبہ بھی تجویز کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس تنازعے کے حل کی ابتدا کے لیے سعودی اتحادی افواج کو فضائی حملے فوری طور پر روک دینا چاہییں۔ انہوں نے زور دیا کہ ایسے حملوں سے جنگجوؤں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے میں مدد نہیں مل سکتی بلکہ صرف شہری علاقوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ظریف کے بقول اس تنازعے میں القاعدہ نیٹ ورک کو بھی پنپنے کا کوئی موقع فراہم نہیں کیا جانا چاہیے۔
ایرانی وزیر خارجہ کے چار نکاتی منصوبے میں سیز فائر، انسانی بنیادوں پر امدادی کاموں کی اجازت، یمن میں داخلی سطح پر مذاکراتی عمل کا آغاز اور ایک وسیع تر مخلوط حکومت کا قیام شامل ہیں۔
سعودی عرب اور دیگر سنی ریاستیں ایران پر الزام عائد کرتی ہیں کہ وہ یمن میں شیعہ باغیوں کی پشت پناہی کر رہا ہے جبکہ تہران شروع سے ہی ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے انہیں مسترد کرتا آیا ہے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ایران نے حوثیوں کو اسلحہ فراہم کیا ہے جبکہ ایرانی جنگجو یمن میں حوثی باغیوں کے ساتھ مل کر صدر منصور ہادی کی حامی افواج کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔
حوثیوں پر سعودی اتحادی حملے جاری
جہاں سعودی اتحادی افواج حوثی باغیوں کو نشانہ بنانے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں، وہیں یہ شیعہ باغی بھی پرتشدد کارروائیوں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ گزشتہ رات ان باغیوں نے بندرگاہی شہر عدن کے مضافات میں ایک کارروائی کرتے ہوئے سات افراد کو ہلاک کر دیا جبکہ اسی شہر کی طرف باغیوں کی پیشقدمی روکنے کے لیے اتحادی افواج نے تازہ حملے بھی کیے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا ہے کہ عدن کے نواح میں ان باغیوں اور صدر منصور ہادی کی افواج کے مابین گھمسان کی لڑائی جاری ہے۔
یمنی دارالحکومت صنعاء پر قبصے کے بعد ان باغیوں کی طرف سے عدن کی طرف پیشقدمی کے نتیجے میں سعودی اتحاد نے 26 مارچ کو فضائی اور بحری حملوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ سعودی قیادت پُرعزم ہے کہ ان باغیوں کی طرف سے شکست تسلیم کر لینے تک ان کے خلاف عسکری کارروائی جاری رہے گی۔ ریاض حکومت کو اندیشہ ہے کہ ہمسایہ ملک میں جاری یہ بحران سعودی عرب کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
یمن میں اشیائے خوراک کی قلت
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت نے خبردار کیا ہے کہ یمن کے تنازعے کی وجہ سے ملک بھر میں نہ صرف تجارت متاثر ہو رہی ہے بلکہ زرعی شعبہ بھی شدید عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس ادارے نے یمن میں خوراک کی ممکنہ قلت کے خلاف خبردار بھی کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ سال 2015ء کے دوران کاشتکاری متاثر ہونے کے نتیجے میں قریب سولہ ملین افراد کو، جو یمن کی کل آبادی کا ساٹھ فیصد بنتا ہے، انسانی بنیادوں پر مدد کی شدید ضرورت ہو گی۔
اس صورتحال میں حوثی شیعہ باغیوں کے ایک نمایاں رہنما محمد البخیتی نے سعودی اتحادی فورسز پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ دانستہ طور پر یمن کے بنیادی شہری ڈھانچے کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ البخیتی نے مزید کہا کہ شہریوں کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ یہ عسکری اتحاد یمنی آبادی کا محاصرہ کرنے کی بھی کوشش میں ہے تاکہ ہتھیار پھینک دیے جائیں۔ سعودی قیادت میں عسکری اتحاد نے نہ صرف یمن کے ساحلی علاقوں کی ناکہ بندی کر رکھی ہے بلکہ یمنی فضائی حدود کو بھی سربمہر کیا جا چکا ہے۔
محمد البخیتی نے البتہ عہد کیا ہے کہ ان کے حامی ہتھیار نہیں پھینکیں گے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اس قرارداد کو بھی مسترد کر دیا، جس میں حوثی باغیوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ صنعاء سمیت دیگر علاقوں کا قبضہ چھوڑ دیں۔ البخیتی نے اس قرارداد کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپنے حامیوں پر زور دیا کہ وہ بڑے پیمانے پر احتجاجی ریلیاں نکالیں تاکہ عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا جا سکے۔