ایرانی ایٹمی پاور پلانٹ میں ایندھن بھرنے کا آغاز
26 اکتوبر 2010ایک ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت والے روسی ساخت کے اس جوہری بجلی گھر میں بتدریج کُل 163 فیول راڈز لگائے جانا ہیں۔ ایران کے نیوکلیئر انرجی آرگنائزیشن نامی ادارے کے سربراہ علی اکبر صالحی نے بوشہر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس پاور پلانٹ کا آغاز ملکی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل ہے۔ انہوں نے اس موقع پر بتایا کہ اگر تمام معاملات درست رہے، تو اس پاور پلانٹ کو اگلے برس جنوری میں بجلی کے ملکی نیٹ ورک سے منسلک کر دیا جائے گا۔
بوشہر پاور پلانٹ میں جوہری فیول بھرنے کی افتتاحی تقریب کی کوریج کی اجازت صرف ملکی میڈیا کو ہی دی گئی، مزید یہ کہ مقامی میڈیا کو بھی اس پلانٹ کے جوہری فیول کی بھرائی والے ہال تک جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
ایران کی طرف سے اس پاور پلانٹ کو چلانے کے لئے جوہری ایندھن بھرنے کا کام ایک ایسے وقت پر کیا گیا ہے، جب بین الاقوامی برادری کے ساتھ تہران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے کشیدگی موجود ہے۔ مغربی ممالک کو شبہ ہے کہ ایرانی جوہری پروگرام دراصل ایٹمی اسلحے کی تیاری کے لئے ہے، جبکہ ایران کا اس سلسلے میں موقف ہے کہ اس کا یہ پروگرام محض توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ہے۔
ایٹمی توانائی کے ایرانی ادارے کے سربراہ علی اکبر صالحی کا مزید کہنا تھا کہ بوشہر پاور پلانٹ کے کام کرنے کی ابتدا دراصل ایران کی ایٹمی توانائی کے ذریعے کُل 20 ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کرنے کی کوششوں کا آغاز ہے۔ صالحی کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب تک بوشہر کا پلانٹ اپنی ایک ہزار میگا واٹ بجلی کی مکمل پیداواری صلاحیت حاصل نہیں کرلیتا، تب تک کسی نئی جوہری پلانٹ کی منصوبہ بندی نہیں کی جائے گی۔
بوشہر میں حالیہ زلزلوں کے جھٹکوں کے تناظر میں جب صالحی سے اس ایٹمی بجلی گھر میں سلامتی سے متعلق تحفظات کے بارے میں سوال کیا گیا، تو ان کا کہنا تھا کہ ایرانی اور روسی ماہرین نے اس حوالے سے اس جوہری پاور پلانٹ کے محفوظ ہونے کی گارنٹی دی ہے۔
بوشہر کے ایٹمی بجلی گھر کی تعمیر اور اس کے باقاعدہ آغاز کا معاملہ کافی عرصے تک تعطل کا شکار رہا، جس کے باعث ایران اور روس کے باہمی تعلقات میں سرد مہری بھی پیدا ہوئی۔
جوہری ماہرین کے مطابق بوشہر میں ایک بلین امریکی ڈالر کی لاگت سے تیار کئے گئے اس ایٹمی پاور پلانٹ سے ایران کو جوہری ہتھیار بنانے میں کوئی مدد نہیں ملے گی، کیونکہ نہ صرف اس پلانٹ میں استعمال ہونے والا ایٹمی ایندھن روس فراہم کرے گا بلکہ ایران ایسے استعمال شدہ فیول راڈز کی روس کو واپسی کا پابند بھی ہو گا۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: مقبول ملک