ایرانی جنگی بحری جہازوں کی خلیج عدن کی طرف روانگی
8 اپریل 2015نیوز ایجنسی روئٹرز کی دبئی سے آمدہ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ ایران کے سرکاری میڈیا نے آج اس امر کی تصدیق کر دی کہ تہران حکومت نے یمن کے ساحلوں سے کچھ دور سمندری علاقے میں اپنی فوجی موجودگی کا فیصلہ کیا ہے۔ مختلف نیوز ایجنسیوں کے مطابق یہ فیصلہ اُس بحران میں تہران کا جواب ہے، جو یمن میں ایران نواز حوثی شیعہ باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی سربراہی میں بین الاقوامی عسکری اتحاد کے جنگی طیاروں کی طرف سے کیے جانے والے فضائی حملوں کے آغاز کے بعد سے شدت اختیار کر چکا ہے۔
روئٹرز نے پریس ٹی وی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ایران نے اپنے جو دو جنگی بحری جہاز خلیج عدن کی طرف بھیجے ہیں، ان میں سے ایک البُرز ہے اور دوسرا بوشہر نامی وہ جنگی بحری جہاز جو بنیادی طور پر ایک سپورٹ شپ ہے۔
ایرانی بحریہ کے ریئر ایڈمرل حبیب اللہ سیاری نے پریس ٹی وی کو بتایا کہ یہ جنگی بحری جہاز بندر عباس سے اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے اور اس مشن کا مقصد ’ایران کی جہاز رانی کی صنعت کو سمندری قزاقی‘ کے خلاف تحفظ دینا ہے۔ ایرانی حکام نے اس بحری مشن کو براہ راست یمنی تنازعے سے منسوب نہیں کیا۔
سعودی عرب کی سربراہی میں یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف قریب دو ہفتوں سے جاری فضائی حملوں کی ایران نے شروع ہی سے مذمت کی ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ یہ تنازعہ بات چیت سے حل کیا جانا چاہیے۔ اس کے برعکس سعودی عرب کی طرف سے تہران پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ حوثی باغیوں کی فوجی مدد کر رہا ہے۔ ایران کی طرف سے ان سعودی الزامات کی واضح طور پر تردید کی جاتی ہے۔
ریئر ایڈمرل حبیب اللہ سیاری کے مطابق دونوں جنگی بحری جہاز بحیرہ احمر اور یمن سے جنوب کی طرف خلیج عدن کے علاقے میں حفاظتی گشت کریں گے۔ یہ علاقہ تجارتی جہاز رانی کے لیے دنیا کے اہم ترین سمندری راستوں میں سے ایک ہے اور اِسی کو یورپ اور مشرق وسطٰی کے درمیان گیٹ وے قرار دیا جاتا ہے۔
اسی دوران بیروت سے ملنے والی رپورٹوں میں ایرانی نائب وزیر خارجہ مرتضٰی سرمدی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ یمن میں متحارب فریقین کو آپس کے تنازعے کے حل کے لیے مذاکرات کرنے چاہییں۔ مرتضٰی سرمدی نے بیروت میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ان متحارب دھڑوں کو مل کر یمن میں ایک متحدہ قومی حکومت قائم کرنی چاہیے اور ایران اس مقصد کے حصول میں معاونت کے لیے کوشاں ہے۔
ایرانی نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ انہوں نے حال ہی میں الجزائر، تیونس، عراق اور لبنان میں وہاں کی قیادت کے ساتھ جو مشورے کیے، ان کا محور بھی یمن ہی کی بحرانی صورت حال تھی۔