ایرانی جوہری معاہدے پر سعودی خدشات دور کرنے کی کوشش
3 مارچ 2015ایران کے ساتھ ممکنہ جوہری معاہدے پر سعودی عرب کو قائل کرنا امریکی صدر باراک اوباما کے لیے نہایت ضروری ہے کیونکہ سعودی عرب نہ صرف خطے میں امریکا کا قریبی اور با اعتماد ساتھی ہے بلکہ تیل کی مارکیٹ میں بھی واضح اثر و رسوخ رکھتا ہے۔
ویسے تو ایران کے ساتھ ممکنہ جوہری معاہدے کے سب سے بڑے ناقدین اسرائیل اور کانگریس کے ری پبلیکنز ہیں لیکن سعودی عرب بھی اس بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہے۔ سعودی عرب کو شُبہ ہے کہ اس طرح کا کوئی بھی معاہدہ ایران کو مزید سرمایہ اور توانائی فراہم کرے گا اور ایران اسے شام، عراق، لبنان اور یمن میں اپنی پراکسی جنگ لڑنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
گلف کے ایک سفارتکار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ’’سعودیوں کی سوچ ہے کہ اوباما ایرانیوں کے ساتھ ہر صورت کوئی معاہدہ کریں گے کیونکہ یہ ان کے لیگیسی کے لیے اہم ہے اور ایران کو اس معاہدے کے بدلے میں مخصوص علاقائی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔‘‘
جان کیری سعودی عرب کے نئے حکمران شاہ سلمان کو ایران کے ساتھ حالیہ مذاکرات کی تفصیلات بھی فراہم کریں گے اور رواں ہفتے کے اختتام پر دیگر اعلیٰ خلیجی رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔ وہ ان رہنماؤں کو اس بات پر بھی قائل کریں گے کہ ایران کے اس دیرینہ مسئلے کا حل سفارتی حل ان سُنی عرب ملکوں کے اپنے مفاد میں بھی ہے۔
اوباما انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ ایران کے شام اور یمن میں کردار کے بارے میں امریکا کے خدشات بھی سعودی عرب سے مختلف نہیں ہیں لیکن امریکا نے اپنے سُنی عرب اتحادیوں کے لیے ’مضبوط فوجی حمایت‘ کا وعدہ کر رکھا ہے۔
ریاض حکومت اس بارے میں بھی پریشان تھی اور ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کر سکتا ہے۔ وکی لیکس کی طرف سے شائع ہونے والی خفیہ دستاویزات کے مطابق اس بارے میں شاہ عبداللہ نے واشنگٹن سے کہا تھا کہ حملہ کرتے ہوئے ’’سانپ کا سر ہی کاٹ‘‘ دیا جائے۔
لیکن موجودہ حالات میں ان سُنی عرب ملکوں کے لیے ایران کی طرف سے شام میں صدر بشار الاسد، عراق میں شیعہ ملیشیا اور یمن میں حوثی باغیوں کی حمایت سب سے اہم مسئلہ بنا ہوا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق شاہ سلمان آئی ایس اور ایران سے نمٹنے کے لیے سُنی ریاستوں کا متحدہ محاذ قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں شاہ سلمان نے ہمسایہ ملکوں کے علاوہ اردن کے بادشاہ، ترکی اور مصر کے صدور سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق وہ پاکستان کے وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات میں بھی اسی موضوع پر بات چیت کریں گے۔
مصر کے سکیورٹی تجزیہ کار مصطفیٰ علانی، جن کے سعودی وزارت داخلہ کے ساتھ بھی روابط ہیں، کہتے ہیں، ’’ یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ معاہدے کی صورت میں ایران کے مزید جارحانہ رویے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایران پر عائد تمام پابندیاں ختم ہو جائیں گی اور وہ مزید مضبوط ہو جائے گا۔‘‘