ایرانی ریپر کے خلاف سزائے موت کے مقدمے کی دوبارہ سماعت
24 دسمبر 2022ایران کی سپریم کورٹ نے اُس کرد ریپر کے خلاف دوبارہ مقدمہ چلانے کا حکم دیا ہے، جنہیں مبینہ طور پر مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ہونے والے مظاہروں میں پرتشدد احتجاج پر موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
ایران میں 16 ستمبر کو کرد نژاد 22 سالہ مہسا امینی کو قدامت پسند ملک میں رائج لباس کے ضوابط کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا تاہم بعد میں ایران کی اخلاقی پولیس کی حراست میں ان کی موت ہوگئی تھی۔ اس کے بعد ملک بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔
ایران نے رواں ماہ ان مظاہروں کے سلسلے میں دو افراد کو پھانسی دی تھی۔ ایرانی عدلیہ نےاس دوران گرفتار کیے گئے مظاہرین میں سے مزید 11 کو موت کی سزا سنائی ہے۔
دو نہیں ایک مقدمے کی دوبارہ سماعت
ہفتے کے روز ایرانی عدلیہ کی آن لائن ویب سائٹ میزان نے کہا ہے کہ کرد ریپر سمن سیدی، جنہیں سمان یاسین کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کے علاوہ اور ایک گرفتار شخص محمد غوبادلو کے خلاف مقدمے کی سماعت دوبارہ کی جائے گی۔ تاہم اس کے چند گھنٹوں بعد میزان نے سپریم کورٹ سے ایک نیا بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ غوبادلو کی اپیل مسترد کرتے ہوئے اس کی سزا کی توثیق کر دی گئی ہے۔ اس بارے میں مزید تفصیل نہیں بتائی گئی۔
ایران سے باہر انسانی حقوق کی تنظیموں نے کہا ہے کہ سیدی اور غوبادلو کو مظاہروں میں ملوث ہونے کے الزامات کی بنیاد پر سزائے موت کا سامنا ہے۔ میزان نے فیصلوں کی وضاحت نہیں کی لیکن تصدیق کی ہے کہ ان دونوں مظاہرین پر ایسے جرائم کا الزام لگایا گیا ہے جن کی سزا موت ہے۔
'زمین پر فساد‘ اور 'خدا سے دشمنی‘
غوبادلو پر تہران میں "ایک کار کے زریعے حملہ کر کے ایک پولیس اہلکار کو ہلاک اور پانچ دیگر کو زخمی کرنے " کے نتیجے میں مقامی اسلامی قانون کے مطابق ''زمین پر فساد‘‘ برپا کرنےکا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سیدی پر ''محربیہ‘‘ کا الزام لگایا گیا، جس کا مطلب ''خدا سے دشمنی ‘‘ ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ ریپر پر مظاہروں کے دوران تین بار پستول سے ہوائی فائرنگ کرنے کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔
یہ پیش رفت میزان کے اس اعلان کے تین دن بعد سامنے آئی ہے جس میں کہا گیا تھاکہ سپریم کورٹ نے سدرت کے دوبارہ ٹرائل کا حکم دیا تھا، جنہیں احتجاج کے دوران سنگین جرائم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔
پر تشدد مظاہرے
ایران نے اس مظاہروں کے زریعے بد امنی پھیلاے کے الزام کے تحت ہزاروں افراد کو گرفتار کیا ہے ۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ان مظاہروں میں اب تک 200 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں درجنوں سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔ غیر ملکی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے مظاہروں کی تحریک کے خلاف کریک ڈاؤن میں 450 سے زائد افراد کو ہلاک کیا ہے۔
سرعام تختہ دار پر
ایرانی حکام پہلے ہی احتجاج پر دو نوجوانوں کو پھانسی دے چکی ہے۔ 23 سالہ ماجدرضا رہنوارد کو 12 دسمبر کو مشہد شہرکی ایک عدالت کی طرف سے سکیورٹی فورسز کے دو ارکان کو چاقو سے قتل کرنے کے جرم میں موت کی سزا سنائے جانے کے بعد سرعام پھانسی دی گئی تھی۔
اس کے بعد 23 سالہ محسن شیکاری کو بھی سکیورٹی فورسز کے ایک رکن کو زخمی کرنے کے جرم میں پھانسی دی گئی تھی۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہےکہ ایک درجن دیگر مدعا علیہان پر ایسے جرائم کا الزام ہے، جن کے تحت انہیں موت کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ش ر⁄ ر ب (اے ایف پی)