1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی سرحد کے قریب پانچ بلوچوں کی لاشیں برآمد

8 دسمبر 2020

بلوچستان کے شورش زدہ ضلعے تربت میں پانچ بلوچ نوجوانوں کی لاشیں برآمد کی گئی ہیں۔ پاک ایران سرحد کے قریب ان افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/3mQh7
Pakistan-Iran-Grenze im Gebiet Turbat in Belutschistan
تصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

ضلع تربت کے ایک سینیئر سکیورٹی اہلکار  اکرم زاہد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہلاک شدگان کی لاشیں ضروری کارروائی کے لیےسکیورٹی اہلکاروں نے تحویل میں لے لی ہیں ۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا، ''یہ واقعہ ضلع تربت کے دورافتادہ علاقے تمپ میں میں پیش آیا ہے ۔ جس مقام سے لاشیں ملی ہیں یہ پاک ایران سرحدی علاقہ ہے جس میں اکثراوقات پرتشدد واقعات پیش آتے رہتے ہیں ۔ لاشوں سے کچھ شواہد بھی ملے ہیں جن کے ذریعے اصل حقائق تک پہنچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘‘

اکرم زاہد نے کہا کہ بلوچستان کے مکران بیلٹ سے متصل پاک ایران سرحدی علاقے طویل عرصے سے شورش کا شکار ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا، ''ایران سے متصل جنوب مغربی بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں عسکریت پسند تنظیمیں عرصہ درازسے بد امنی میں ملوث ہیں ۔ یہاں حملوں کے دوران درجنوں پاکستانی سکیورٹی اہلکار بھی ہلاک ہوچکے ہیں۔ تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ عسکریت پسند اکثر اوقات حملوں کے بعد ہمسایہ ملک ایران کے سرحدی علاقوں میں فرار ہو جاتے ہیں۔ کئی بار یہاں متحارب عسکریت پسند تنظیموں کے درمیاں بھی جھڑپیں ہوئی ہیں جن میں کئی افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔‘‘

اکرم زاہد کا کہنا تھا کہ فائرنگ کے حالیہ واقعے کی تحقیات جاری ہیں اور ابتدائی طور پر صرف یہ تصدیق کی جا سکتی ہیں کہ ہلاک شدگان بلوچ شہری تھے۔

Pakistan-Iran-Grenze im Gebiet Turbat in Belutschistan
بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام پاکستانی فوج پر عائد کیا جاتا رہا ہے۔تصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

بلوچستان کی بلوچ قوم پرست اورعلیحدگی پسند تنظیمں عرصہ دراز سے پاکستان سیکیورٹی فورسز پر بلوچ سیاسی کارکنوں کی گمشدگی اور قتل کے الزامات عائد کرتی رہی ہیں۔ گزشتہ ماہ سترہ نومبر کو تربت کے ایک نواحی علاقے میں فائرنگ کے ایک واقعے میں بھی تین ایرانی شہری ہلاک ہوئے تھے۔

ان ایرانی شہریوں میں ایک شخص کی شناخت ایران کو انتہائی مطلوب ملا عمر ایرانی جبکہ دیگر دو افراد کی شناخت ان کے بیٹوں کے طور پر کی گئی تھی۔

ذرائع کے مطابق ملا عمرایرانی کا تعلق ایرانی شدت پسند تنظیم جیش العدل سے تھا۔ ایرانی بلوچوں کی شدت پسند تنظیم جیش العدم ایران کے پاسداران انقلاب سمیت اعلیٰ حکومتی شخصیات پر ہونے والے درجنوں حملوں کی ذمہ داری قبول کرچکی ہے۔ ایرانی بارڈر سکیورٹی فورسز ماضی میں متعدد بار یہ دعوے کر چکی ہیں جیشن العدل کے شدت پسند رہنما گرفتاری سے بچنے کے لیے پاکستانی سرحدی علاقوں میں روپوش ہو جاتے ہیں۔

ادھر دوسری جانب پاکستان بھی متعدد بار یہ الزام عائد کرچکا ہے کہ تربت،گوادر،  پنجگور اور دیگر شورش زدہ علاقوں میں سکیورٹی فورسز پر حملوں میں ملوث بلوچ عسکریت پسند ایرانی حدود میں روپوش ہیں۔ کچھ عرصہ قبل گوادر کے علاقے اورماڑہ میں پندرہ فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کا الزام بھی ایران سرحدی علاقوں میں روپوش عسکریت پسندوں پر عائد کیا گیا تھا۔

ادھر علیحدگی کی جنگ لڑنے والی بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کا دعوٰی ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران بلوچستان میں ہزاروں بلوچ شہریوں کو سکیورٹی فورسز نے مبینہ طور پر لاپتا کیا ہے۔ بلوچ سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کا سلسلہ ایک بار پھر زور پکڑ گیا ہے۔

تربت میں ایک کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم سے ماضی میں منسلک رہنے والے مقامی بلوچ رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیوکو بتایا کہ مسخ شدہ لاشیں اکثر ایسے بلوچوں کی ملتی ہیں جو کہ ریاسی اداروں کی تحویل میں ہوتے ہیں۔

انہوں ںے کہا، ''بلوچ قوم کی مسلح جدوجہد اس وقت نتیجہ خیز مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ ریاستی ادارے اس مسلح جدوجہد کو کچلنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں۔ آئے روز بلوچ سیاسی کارکنوں کی لاشیں برآمد ہوتی ہیں ۔ انسانی حقوق کی دعویدار تنظیمیں بلوچوں پر ہونے والے مظالم پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہیں۔‘‘

Pakistan-Iran-Grenze im Gebiet Turbat in Belutschistan
پاک ایران سرحد کے قریب واقع تربت میں تشدد کے واقعات پہلے بھی سامنے آتے رہے ہیں۔تصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

کالعدم تنظیم کے سابقہ رہنما کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ہزاروں بلوچ سیاسی کارکنوں کو اب تک لاپتا کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے کہا، ''بلوچستان میں حقوق کے لیے اواز اٹھانا اس وقت ایک جرم بن چکا ہے۔ ریاستی اداروں نے عوام کے بنیادی حقوق سلب کر رکھے ہیں۔ مظلوم بلوچوں کے تحفظات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ جوسیاسی کارکن قومی جدوجہد میں حصہ لیتے ہیں انہیں لاپتا کردیا جاتا ہے ۔ لاپتا افراد کے لواحقین عدالتوں سے بھی رجوع کرچکے ہیں مگر انہیں وہاں سے کوئی انصاف نہیں مل رہا ہے۔‘‘

واضح رہے کہ بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے اتحاد 'براس‘ نے گزشتہ دنوں بلوچستان کے گوادر پورٹ اور سی پیک منصوبے پر کام کرنے والے چینی انجینئرز پر حملوں کی دھمکی دی تھی۔

براس کے عسکریت پسند گوادر اور کراچی سمیت بلوچستان کے دیگر مختلف علاقوں میں ہونے والے کئی بڑے حملوں کی ذمہ داری قبول کرچکے ہیں۔ گزشتہ ماہ وزیراعظم عمران خان نے بھی پہلی بار تربت کا دورہ کیا تھا جہاں انہیں سی پیک روٹ، سکیورٹی امور اور ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے بریفنگ دی گئی تھی۔