’ایرانی لیڈر مسلمان ہی نہیں ہیں‘، سعودی مفتی اعظم
7 ستمبر 2016حج سے پہلے علاقائی حریف ملکوں سعودی عرب اور ایران کے مابین کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے۔ دو روز پہلے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے سعودی حکام کو ’بے دین‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ مذہبی مقامات کا انتظام مسلم دنیا کو اپنے ہاتھ میں لے لینا چاہیے۔
خامنہ ای نے سعودی عرب کے حکمران خاندان پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے حج کو سیاست بنا دیا ہے اور خود کو ’’حقیر اور چھوٹے شیطانوں میں بدل لیا ہے جو بڑے شیطان (امریکا) کے مفادات خطرے میں پڑنے کی وجہ سے تھرتھرا رہے ہیں۔‘‘
سعودی عرب کے ایک اخبار کی طرف سے کیے جانے والے ایک سوال کے جواب میں اس ملک کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز الشیخ کا کہنا تھا کہ انہیں خامنہ ای کے تبصرے پر کوئی حیرت نہیں ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں۔ ان کے اہم دشمن وہ ہیں، جو سنت کے پیروکار (سنی) ہیں۔‘‘
سعودی مفتی کا کہنا تھا کہ ایرانی لیڈر ’مجوسی‘ کی اولاد ہے۔ یہ اشارہ زرتشت مذہب کی طرف تھا، جو تیرہ صدیاں پہلے ایران میں سب سے مقبول مذہب تھا۔
سعودی مفتی کے جواب میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بیانات سعودی حکام کے تعصب کا ثبوت ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’حقیقت میں اُس اسلام میں، جو ایران کا یا زیادہ تر مسلمانوں کا ہے اور اُس اسلام میں، جس کی متعصب انتہاپسند وہابی عالم اور سعودی دہشت گرد ماسٹر تبلیغ کر رہے ہیں، کوئی مماثلت نہیں ہے۔‘‘
سعودی حکام ابھی تک عوامی سطح پر اس بحث سے گریز کرتے آئے ہیں کہ آیا ایرانی غیر مسلم ہیں۔ سعودی عرب میں ایرانی گزشتہ برس تک حج بھی کرتے رہے ہیں لیکن رواں برس تعلقات میں کشیدگی اس وقت پیدا ہوائی تھی، جب سعودی عرب میں ایک شیعہ عالم کو پھانسی کی سزا دے دی گئی تھی اور جواب میں احتجاج کرتے ہوئے ایرانیوں نے سعودی عرب کے سفارت خانے پر حملہ کر دیا تھا۔
مکہ میں حج کے لیے آئے ہوئے الجزائر کے ایک رکن پارلیمان کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ خطّے میں نظریاتی اور سیاسی انتشار کو ختم کرنے کی کوششیں کی جانی چاہییں، ’’ہم اس دنیا میں تنہا نہیں ہیں اور ہمیں کئی دیگر سیاسی مسائل کا سامنا ہے۔ ہمیں متحد رہنا چاہیے۔ ہمیں ان مسائل کو ختم کرنا چاہیے، جو مسلم دنیا میں تقسیم کا باعث بن رہے ہیں۔‘‘