1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ایرانی مؤقف کو نظر انداز کرنا درست نہیں ہو گا‘

22 فروری 2019

پاکستان میں دفاعی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاک ایران تعلقات میں سرد مہری خطے کی مجموعی سلامتی پر انتہائی منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان نے ایرانی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں سرچ آپریشن کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3Dq7H
Karte Iran Chabahar ENG

ایرانی صوبے سیستان بلوچستان میں سپاہ پاسداران انقلاب کی بس پر خودکش حملے کے باعث پاک ایران تعلقات ایک بار پھر شدید تناؤ کا شکار ہیں۔ ایران کے جنوب مشرقی صوبے سیستان بلوچستان میں سپاہ پاسداران انقلاب کی بس پر 13 فروری کو ایک خودکش حملہ کیا گیا جس کے بعد سے پاک ایران تعلقات ایک بار پھر شدید تناؤ کا شکار ہیں۔ ایرانی فوجی اور انٹیلی جنس حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران میں سرگرم شدت پسند تنظیم جیش العدل کے عسکریت پسند پاکستانی حدود میں روپوش ہیں اور وہاں سے ایران پر حملے کیے جا رہے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان نے ایرانی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے پاکستانی سر زمین کی ایران مخالف حملوں میں استعمال ہونے کے قابل عمل شواہد طلب کیے ہیں۔ ایرانی فوجی عہدیداروں نے مختلف بیانات میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ اگر پاکستان نے جیش العدل نامی تنظیم کے خلاف ٹھوس کارروائی نہیں کی تو ایرانی فوجی دستے پاکستانی حدود میں داخل ہوکر شدت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں کو نشانہ بنائیں گے۔

ذرائع کے مطابق ایران میں ہونے والے اس تازہ حملے کے بعد پاکستان نے صوبہ بلوچستان کے جنوب مغربی حصے میں ایرانی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں ایک سرچ آپریشن بھی کیا ہے۔ اس اپریشن کے حوالے سے اگرچہ متعلقہ حکام نے باضابطہ طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز نے اس آپریشن کے دوران کئی افراد کو حراست میں لیا ہے جن سے اس وقت تحقیقات کی جارہی ہیں۔

پاکستان ایران سرحد نو سو کلومیٹر سے زائد فاصلے پر محیط ہے اور اس وقت ایک ہی راستے میرجاوہ زیرو پوائنٹ تفتان سے قانونی طور پر دونوں ممالک کے درمیان نقل و حمل ہوتی ہے۔ اس سرحد پر مؤثر نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر غیرقانونی نقل و حمل معمول کا حصہ ہے۔ تفتان پنجگور، تربت اور بلوچستان کے دیگر علاقوں سے ملحقہ ایرانی سرحد کے غیر قانونی راستوں کے ذریعے انسانی اسمگلنگ کامعاملہ دن بدن شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس روٹ کے ذریعے انسانی اسمگلرز بڑے پیمانے پر پاکستان اور افغانستان کے غیر قانونی تارکین وطن کو بھاری رقوم کے عوض یورپی ممالک منتقل کرتے رہتے ہیں۔

Grenze zwischen dem Iran und Pakistan
ذرائع کے مطابق ایران میں ہونے والے اس تازہ حملے کے بعد پاکستان نے صوبہ بلوچستان کے جنوب مغربی حصے میں ایرانی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں ایک سرچ آپریشن بھی کیا ہے۔تصویر: picture-alliance/imageBROKER/F. Bienewald

ایران میں 2003 سے شروع ہونے والے زیادہ تر شدت پسند حملوں کی ذمہ داری جنداللہ نامی تنظیم قبول کرتی رہی ہے۔ 2010 میں اس عسکریت پسند تنظیم کے سربراہ عبدالمالک ریگی کو دبئی سے کرغزستان جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا جسے بعد میں ایران میں پھانسی دی گئی۔

عبدالمالک ریگی کی گرفتاری میں پاکستان نے مدد کی تھی اور بعد میں اسی تنظیم کے ایک اور رہنماء عبدالستار ریگی کو بھی پاکستان نے چند سال قبل گرفتار کر کے ایران کے حوالے کیا تھا۔ عبدالمالک ریگی کی ہلاکت کے بعد ایران میں منظر عام پر آنے والی شدت پسند تنظیموں جیش النصر اور جیش العدل کو بھی جنداللہ کی ذیلی تنظیمیں قرار دیا گیا ہے۔ اس تنظیم سے وابستہ شدت پسندوں کا تعلق ایران کی سنی بلوچ برادری سے بتایا جاتا ہے۔

پاکستان میں دفاعی امور کے سینئر تجزیہ نگار  پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ پاک ایران تعلقات میں سرد مہری خطے کی مجموعی سلامتی پر انتہائی منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’پاکستان اور ایران اس خطے کے دو اہم ترین ممالک ہیں۔ اس وقت شدت پسندوں کے حملوں سے بھی دونوں ممالک یکساں طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔ ایران کی جانب سے جو موقف سامنے آیا ہے اسے نظرانداز کرنا درست نہیں ہوگا۔‘‘

پروفسیر حسن عسکری کے مطابق پاک ایران سرحد کو محفوظ بنانا دونوں ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ انہوں نے مذید کہا، ’’دیکھیں یہ ایک بہت اہم اور سنجیدہ معاملہ ہے اور میرے خیال میں اسے سنجیدگی سے نہیں دیکھا جا رہا ہے۔ پاک ایران سرحد ایک بہت طویل اورغیر محفوظ سرحد ہے۔ جب تک دونوں ممالک اس کی سکیورٹی کے لیے ایک جامع مکینزم مرتب نہیں کریں گے حالات میں کسی بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔‘‘

پاکستان کے سرحدی امور کے سابق وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ جو بلوچستان میں کور کمانڈر بھی رہ چکے ہیں، کہتے ہیں کہ خطے میں سلامتی کے لیے بیان بازی کے بجائے نتیجہ خیز اقدامات کی ضرورت ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا، ’’اس وقت پاکستان اور ایران کے تعلقات میں جو عوامل تناؤ کا سبب بن رہے ہیں ان پر سنجیدگی سے کوئی غور نہیں کیا جا رہا ہے۔ باہمی تعلقات کے لیے اعتماد کی بحالی بہت اہم ہے۔ ایران جب تک زمینی حقائق کی بنیاد پر پاکستان کی پوزیشن کو نہیں پرکھے گا یہ صورتحال اسی طرح برقرار رہے گی۔‘‘

Pakistan - Dr Hasan Askari Rizvi
پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ پاک ایران تعلقات میں سرد مہری خطے کی مجموعی سلامتی پر انتہائی منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔تصویر: DW/T. Shahzad

عبدالقادر بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ ایران اور پاکستان کے برادرانہ تعلقات میں پیدا ہونے والی کشیدگی کے خاتمے کے لیے دونوں ممالک کو مل کر کام کرنا ہوگا: ’’اس وقت یہاں جو شورش پیدا کی جا رہی ہے وہ بلاوجہ نہیں ہے۔ بعض قوتیں یہ نہیں چاہتیں  کہ پاک ایران تعلقات مستحکم ہوں۔‘‘

پاک ایران تعلقات میں کشیدگی کی جہاں دیگر کئی وجوہات ہیں، وہیں حالیہ تناؤ کہ ایک وجہ یہ بھی قرار دی جا رہی ہے کہ حالیہ دورہ پاکستان کے دوران سعودی وزیرخارجہ عادل الجبیر نے پاکستانی وزیر خارجہ کے ہمراہ ایران پر شام، عراق اور لبنان کی شورش میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔

پاک ایران تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے کوئٹہ میں مقیم معروف محقق عبدالرحمان نورزئی کہتے ہیں کہ پاک ایران تعلقات میں حالیہ تناؤ ایک بین الاقومی سازش کا نتیجہ ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’پاکستان اور ایران کے درمیان برادرانہ تعلقات کو دشمنی میں بدلنے کے لیے ہمیشہ سازشیں ہوتی رہی ہیں۔ اس وقت بھی ایران مخالف قوتیں ایک منظم زاویے سے کام کر رہی ہیں۔ ایران عراق جنگ کے تنازعے کی بنیاد بھی انہی قوتوں نے رکھی تھی۔ اس وقت خطے میں مذہبی منافرت پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور امن دشمن عناصر یہ نہیں چاہتے کہ ایران اور پاکستان کے برادرانہ تعلقات بحال رہے۔‘‘

عبدالرحمن نورزئی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں مذہبی منافرت کی بنیاد سابق فوجی آمر جنرل ضیاء کے دور میں رکھی گئی تھی جس سے آج بھی اس خطے کے لوگ متاثر ہو رہے ہیں: اس وقت یمن اور دیگر اسلامی ممالک میں جو شورش چل رہی ہے اس کےاثرات اب ہم پر بھی پڑنا شروع ہو گئے ہیں۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ امن دشمن عناصر پاکستان اور ایران کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اس حوالے سے ایک جامع حکمت عملی مرتب کرے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں