ایرانی میزائل تجربہ اقوام متحدہ کی قرارداد کی خلاف ورزی ہے؟
1 فروری 2017قبل ازیں امریکی حکام نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا ایران کی طرف سے یہ میزائل تجربہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف وزری کی گئی ہے یا نہیں۔ اس کے بعد اسرائیل کی طرف سے بھی اس میزائل تجربے کی شدید مذمت کی گئی تھی لیکن تہران حکومت اس معاملے پر مکمل خاموش تھی۔
ایران کی نیم سرکاری نیوز ایجنسی تسنیم نے ایرانی وزیر دفاع جنرل حسین دہقان کے حوالے سے لکھا ہے، ’’حالیہ میزائل تجربہ منصوبے کے مطابق ہے اور ہم کسی غیرملکی کو اپنے دفاعی معاملات میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘‘
تاہم ایرانی وزیر دفاع نے نہ تو یہ بتایا ہے کہ یہ میزائل ٹیسٹ کب کیا گیا تھا اور نہ ہی یہ کہ یہ کس قسم کا میزائل تجربہ تھا۔ انہوں نے یہ ضرور بتایا ہے کہ یہ تجربہ نہ تو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے اور نہ ہی سن دو ہزار پندرہ میں کیے جانے والے جوہری معاہدے کی۔ ایران نے چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدہ گزشتہ برس کیا تھا لیکن اس معاہدے میں یہ دفعات شامل نہیں تھیں کہ ایران کوئی میزائل ٹیسٹ نہیں کرے گا۔
یہ معاہدہ سن دو ہزار سولہ میں نافذ ہوا تھا اور اس کے بعد اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں ایران پر عائد کردہ زیادہ تر پابندیاں اٹھا لی گئی تھیں۔ اس طرح سن دو ہزار دس میں عائد کردہ وہ پابندی بھی ہٹا لی گئی تھی، جس میں ایران کو جوہری ہتھیار لے جانے والے میزائل تجربات کرنے سے منع کیا گیا تھا۔
اس کے بعد سن دو ہزار پندرہ میں سلامتی کونسل نے ایک ایسی قرار داد منظور کی تھی جس میں ایران سے اس طرح کے میزائل تجربات نہ کرنے کا کہا گیا تھا۔ دوسری جانب امریکا کی طرف سے ایرانی میزائل پروگرام پر پابندیاں اب بھی عائد ہیں۔
امریکا کی درخواست پر سلامتی کونسل کا ایک خصوصی اجلاس منگل کے روز بلایا گیا تھا۔ سلامتی کونسل نے یہ معاملہ ایک خصوصی کمیٹی کے حوالے کر دیا ہے تاکہ وہ مزید تحقیق کرے۔
قبل ازیں ایران نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ دو ہزار کلومیٹر تک اپنے ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائل تیار کر چکا ہے۔