ایرانی میزائل پروگرام پر امریکا سے مکالمت ناممکن، جواد ظریف
10 اپریل 2016تہران سے اتوار دس اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق جواد ظریف نے ملکی دارالحکومت میں بالٹک کی جمہوریہ اور یورپی یونین کی رکن ریاست ایسٹونیا کی وزیر خارجہ مارینا کالیَورانڈ Marina Kaljurand کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا، ’’ایرانی میزائل پروگرام کوئی مذاکراتی موضوع تو ہے ہی نہیں۔‘‘
جواد ظریف نے کہا، ’’اس میزائل پروگرام کا تعلق اسلامی جمہوریہ ایران کی دفاعی صلاحیتوں سے ہے اور اسے زیر بحث نہیں لایا جا سکتا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’اگر امریکا مشرق وسطیٰ کے خطے میں دفاعی معاملات کے بارے میں سنجیدہ ہوتا تو وہ سعودی عرب اور اسرائیل کو ہتھیاروں کی سپلائی بند کر دیتا۔‘‘
ایرانی وزیر خارجہ کے اتوار کو دیے جانے والے اس بیان کا پس منظر امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا ایک حالیہ بیان بھی ہے۔ کیری نے چند روز پہلے کہا تھا کہ امریکا اور اس کے علاقائی اتحادی تہران کی طرف سے کیے گئے حالیہ میزائل تجربات کے باعث پیدا ہونے والے تنازعے کے پرامن حل کی تلاش کے لیے ’ایک نئے طریقہء کار پر کام کرنے کے لیے تیار‘ ہیں۔
ماضی میں کئی برس تک ایرانی ایٹمی پروگرام کی وجہ سے تہران اور بین الاقوامی برادری کے درمیان پائے جانے والے تنازعے کے حل کے بعد اب ایرانی میزائل پروگرام ہی وہ اہم موضوع ہے، جس پر ایرانی موقف اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کے طرز فکر میں واضح خلیج پائی جاتی ہے۔
تین روزہ فوجی مشقیں
تہران ہی سے ملنے والی دیگر رپورٹوں کے مطابق ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی نے بتایا ہے کہ ایران کے محافظین انقلاب کہلانے والے دستے منگل 12 اپریل سے اپنی تین روزہ مشقیں شروع کر رہے ہیں۔ یہ زمینی فوجی مشقیں ملک کے جنوب مشرق میں پاکستان کے ساتھ سرحد کے قریبی علاقوں میں شروع کی جائیں گی، جو تین دن تک جاری رہیں گی۔
محافظین انقلاب کور کی زمینی فورسز کے کمانڈر محمد خاک پور نے سرکاری نیوز ایجنسی اِرنا کو بتایا کہ یہ فوجی مشقیں چار ایرانی صوبوں میں مکمل کی جائیں گی اور اس دوران تین دن تک جدید عسکری ساز و سامان کا تجرباتی استعمال کیا جائے گا۔ ان زمینی فورسز میں ایک نیا ہیلی کاپٹر یونٹ بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ یونٹ بھی ان مشقوں میں حصہ لے گا۔