ایرانی وزیر خارجہ کے بیانات کی ریکارڈنگ لیک: ایران میں تہلکہ
26 اپریل 2021ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے ان غیر معمولی بیانات نے ملک میں خاصہ تہلکہ مچا دیا ہے۔ ایران کا شمار ایک ایسے ملک میں ہوتا ہے جہاں حکومتی اہلکار بہت سوچ سمجھ کر اور نپے تلے الفاظ میں بیان دیا کرتے ہیں۔ ایران کا سیاسی ماحول کافی حد تک گھٹا ہوا ہے اور یہاں کی انقلابی گارڈز یا پاسداران انقلاب کے پاس بے پناہ طاقت ہے اور ہر سیاسی فیصلے کا حتمی اختیار ملک کے سپریم لیڈر کے پاس ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ جواد ظریف اس سال 18 جون کے صدارتی انتخابات کے ایک ممکنہ امیدوار سمجھے جا رہے ہیں۔
ایران جوہری معاہدہ:ابھی مشکل ہے ڈگر پنگھٹ کی
ظریف کا انٹرویو کس نے کیا؟
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا یہ انٹرویو لندن میں قائم فارسی زبان کا ایک سیٹیلائیٹ نیوز چینل 'ایران انٹرنیشنل‘ نے کیا تھا۔ تین گھنٹوں سے کچھ طویل اس انٹرویو کی فائل اس چینل نے پیر کو ایسوسی ایٹیڈ پریس کے ایک ایسے نمائندے کے ساتھ شیئر کی جو متحدہ عرب امارات میں مقیم ہے۔ واضح رہے کہ تہران ماضی میں چینل 'ایران انٹرنیشنل‘ کو 2018 ء پر ایرانی شہر اھواز میں ایک ملٹری پریڈ پر ہونے والے عسکریت پسندوں کے حملے کے ضمن میں ایک بیان نشر کرنے پر سخت تنقید کر چُکا ہے۔ اس حملے میں ملوث عسکریت پسندوں کے ترجمان نے اس حملے کی تعریف کی تھی جسے لندن میں قائم اس چینل نے نشر کیا تھا۔ یاد رہے کہ اس دہشت گردانہ حملے میں ایک بچے سمیت 25 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ایران کی تنقید کی چینل کے برطانوی ریگیولیٹرز نے تردید کر دی تھی۔
ایران اور چین نے اسٹریٹیجک تعاون کا پچیس سالہ معاہدہ کر لیا
ظریف کا بیان
مذکورہ انٹرویو کے چند خاص خاص حصوں کو نیوز چینل 'ایران انٹرنیشنل‘ نے راتوں رات نشر کیا۔ ایرانی وزیر خارجہ کے ان بیانات کے لیک ہونے کے بعد ایرانی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان سعید خطیب زادہ نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے گرچہ اس ٹیپ کی صداقت پر سوال نہیں اُٹھایا تاہم ان کا کہنا تھا کہ جواد ظریف نے قریب سات گھنٹے کا انٹرویو ایک معروف ماہر اقتصادیات کو دیا تھا اور اس کا انعقاد ایرانی صدارتی محل سے وابستہ ایک تھنک ٹینک نے کیا تھا۔
خطیب زادہ نے اس ریکارڈنگ کو لیک کرنے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ انٹرویو کے منتخب حصوں کو ایڈٹ کیا گیا ہے۔ تاہم خطیب زادہ اور دیگران نے اس پر کوئی رائے نہیں دی کہ یہ کیسے عام ہوا۔ جوہری معاہدہ: جرمن چانسلر اور ایرانی صدر کی بات چیت
ظریف نے بیان میں کیا کہا؟
ایرانی وزیر خارجہ نے انٹرویو میں کہا کہ ایران کی نیو کلیئر ڈیل کو روس روکٓنا چاہتا ہے اور یہ موضوع ظریف کے لیے اتنا اہم اور نازک تھا کہ انہوں نے انٹرویو کرنے والے سے کہا،'' آپ کسی صورت بھی یہ حصہ نشر نہیں کر سکتے۔‘‘ روس کے اُس وقت کے امریکی صدر بارک اوباما کے ساتھ تعلقات سرد تھے اور باراک اوباما انتظامیہ ہی نے ایرانی صدر حسن روحانی کے ساتھ جوہری ڈیل کو تحفظ فراہم کیا تھا۔ شام کی جنگ میں روس اور ایران ایک دوسرے کے حلیف ہیں مگر اس کے باوجود بعض اوقات کریملن اور تہران کے مابین بھی کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے۔ جواد ظریف نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا،'' اگر ایران ڈونلڈ ٹرمپ کی ترجیح نہ ہوتا تو چین اور روس ان کی ترجیح بنتے۔‘‘ ظریف کا مزید کہنا تھا،'' مغرب کے ساتھ دشمنی کی وجہ سے ہمیں ہمیشہ چین اور روس کی ضرورت ہے، انہیں کسی کا مقابلہ کرنے کی ضرورت نہیں اور یہ ہمیشہ ہمارے ذریعے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔‘‘
کیا ایران جنرل سلیمانی کا قتل سہ جائے گا؟
چین اور روس دونوں ہی جوہری ڈیل کی حمایت کرتے آئے ہیں۔ پیر کے روز جواد ظریف کے بیانات لیک ہونے پر ان ممالک کے ویانا مشن سے تبصرہ کرنے کی درخواست کا کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔ لیک ہونے والی ریکارڈنگ میں جواد ظریف نے پاسداران انقلاب کے مقتول جنرل قاسم سلیمانی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جن کے روس کے ساتھ علیحدہ سے تعلقات قائم تھے۔ جنرل قاسم سلیمانی کو 2020 ء میں عراق میں ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا جس کے بعد ایران اور امریکا جنگ کے دہانے پر آ پہنچے تھے۔ یاد رہے کہ جنرل سلیمانی کے جنازے کے جلوس میں شرکت کے خواہشمند لاکھوں افراد سڑکوں پر نکلے تھے۔
دریں اثناء سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو، جنہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کو ایران پر دباؤ کی مہم میں شدت کی طرف دھکیلا تھا، نے ظریف کے بیانات لیک ہونے کے بارے میں ایک ٹویٹ میں تحیریر کیا،'' یہ ایک عمدہ وار ہے جس کے اثرات ایران اور مشرق وسطیٰ پر بہت گہرے ہوں گے۔‘‘
ک م/ ع ا ) اے پی ای، ای پی اے(