’ایرانیوں کو یورپ سے امیدیں‘
7 جولائی 2018اکیاون سالہ اعظم ایک گھریلو خاتون ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ آج کل تہران میں ہر جگہ ایران پر پابندیوں کے خطرات کے موضوع پر بات ہو رہی ہے۔ میں صرف یہ کہہ سکتی ہوں کہ ماحول بہت ہی افسردہ ہے اور ہمیں یہ امید بھی نہیں کہ ہمارے سیاستدان اس صورتحال سے ہمیں نکال سکیں گے۔‘‘
اعظم، بیک وقت غصے میں بھی ہیں اور خوف زدہ بھی۔ ان کے پچھتر سالہ والد دل کے عارضے میں مبتلا ہیں اور انہیں ’وارفارین‘ نامی ایک ایسی دوا چاہیے ہوتی ہے، جس کی تہران میں آج کل کمی ہوتی جا رہی ہے۔
بین الاقوامی پابندیوں کے بعد ایران کے عام شہریوں کو اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایران یہ اور اس قسم کی کئی دوائیں درآمد کرتا ہے اور موجودہ صورتحال میں اس طرح کی ادویات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔
آج کل ایک امریکی ڈالر کی قیمت 43 ہزار ایرانی ریال ہے جبکہ گزشتہ برس ایک ڈالر کی قدر بتیس ہزار ریال تھی۔
ماہرین کے مطابق امریکی پابندیوں سے ایران کا بینکنگ کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہو گا۔ جون کے اختتام پر زیادہ تر یورپی بینکوں نے ایران کے ساتھ رقم کا تبادلہ روک دیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یورپی کمپنیوں کو ایران کے ساتھ تجارت اور رقم کی منتقلی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
تہران کے ایک اڑتیس سالہ تاجر اسماعیل کے بقول، ’’اس طرح ہمارا کاروبار اور ہماری زندگی تباہ ہو رہی ہے۔ ہم نے حسن روحانی کو اس لیے منتخب کیا تھا کیونکہ ہم مغرب کے ساتھ پر امن تعلقات چاہتے ہيں۔ ہم بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری بھی کر رہے ہیں پھر امریکی پالیسی میں اچانک تبدیلی کی سزا ہمیں کیوں دی جا رہی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’یورپ ہماری مدد کر سکتا ہے اور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ایران خطے کا ایک بڑا اور مستحکم ملک ہے۔‘‘