ایردوآن کا دورہٴ روس، پوٹن سے ہنگامہ خیز ملاقات
9 اگست 2016ایردوآن اور پوٹن کے درمیان یہ ملاقات پوٹن کے آبائی شہر سینٹ پیٹرز برگ میں عمل میں آ رہی ہے۔ یہ دورہ ترکی میں گزشتہ مہینے کی اُس ناکام بغاوت کے بعد سے ایردوآن کا پہلا غیر ملکی دورہ ہے، جس کے بعد سے ترکی میں ہزارہا حکومت مخالفین کی پکڑ دھکڑ شروع ہو چکی ہے اور جس کی وجہ سے مغربی دنیا کے ساتھ ترکی کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہو چکے ہیں۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق دونوں صدور نے ایک دوسرے سے مصافحہ کیا، جس کے بعد پوٹن نے ایردوآن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:’’داخلی سیاست کے حوالے سے آپ کے ملک کی مشکل صورتِ حال کے باوجود آپ کا یہ دورہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم سب مکالمت کا عمل پھر سے شروع کرنا چاہتے ہیں اور روس اور ترکی کے مابین تعلقات کی بحالی چاہتے ہیں۔‘‘
اس موقع پر ایردوآن نے، جو اپنے اس دورے کو ایک ’نیا سنگِ میل‘ قرار دے چکے ہیں، پوٹن کو بتایا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات ایک ’بہت ہی مختلف مرحلے‘ میں داخل ہو چکے ہیں۔ ایردوآن نے بغاوت کی کوشش کے بعد ماسکو حکومت کی جانب سے اظہارِ یک جہتی کے لیے شکریہ بھی ادا کیا۔
شامی سرحد پر ترکی کے ایک ایف سولہ طیارے کی جانب سے ایک روسی جنگی طیارے کو مار گرائے جانے پر روسی صدر پوٹن بہت برہم ہوئے تھے، جس کے بعد ترکی کے خلاف پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں اور ایردوآن کے ساتھ اُن کی الفاظ کی ایک ایسی جنگ شروع ہو گئی تھی، جس کے بعد لگتا تھا کہ دونوں کے تعلقات شاید ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خراب ہو چکے ہیں۔
پھر لیکن اس سال جون میں پوٹن نے ایردآون کی جانب سے طیارے کی تباہی پر ایردوآن کا معذرت نامہ قبول کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی ترکی کے لیے سیاحتی پیکجز پر پابندی بھی فوری طور پر ہٹا لی گئی تھی اور ترکی سے خوراک کی درآمدات اور ترک تعمیراتی کمپنیوں کے خلاف پابندیاں بھی جلد ختم کرنے کا عندیہ دے دیا گیا تھا۔
ایردوآن اور پوٹن کی اس ملاقات پر مغربی دنیا میں یہ خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا رکن ملک ترکی روس کے اور قریب چلا جائے گا، بالخصوص ان حالات میں کہ خود ایردوآن بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ اُن کے خیال میں امریکا اور یورپ نے اُنہیں مشکل وقت میں تنہا چھوڑ دیا ہے۔ دوسری طرف ناکام بغاوت کے بعد جن عالمی رہنماؤں نے سب سے پہلے ایردوآن کو فون کیا، اُن میں پوٹن بھی شامل تھے۔