1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایردوآن کے قریبی ساتھی کی نئی سیاسی جماعت

10 ستمبر 2019

سابق ترک نائب وزیر اعظم علی باباجان نے اس سال کے آخر تک ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا ہے۔  اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ وہ صدر رجب طیب ایردوآن کی حکمران جماعت 'اے کے پی‘ کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3PKHw
Türkei Präsident Erdogan und Ali Babacan
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Suna

علی بابا جان کے  حوالے سے گزشتہ کئی مہینوں سے چہ میگوئیاں جاری تھیں۔ باباجان نے شدید اختلافات کے بعد رواں برس جولائی میں 'اے کے پی‘ سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ آج منگل کو شائع ہونے والے اپنے انٹرویو میں انہوں نے مزید کہا، '' اس میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ ہم 2020ء سے قبل سیاسی جماعت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں پر معیار کی اہمیت ہو گی۔‘‘

Ali Babacan und Abdullah Gül Türkei
بہت عرصے سے ایسی خبریں گردش کر رہی تھیں کہ باباجان 'اے کے پی‘ کے سابق صدر عبداللہ گل کے ساتھ مل کر ایک نئی حریف جماعت بنانا چاہتے ہیں۔تصویر: picture-alliance/dpa

علی باباجان نے ایردوآن کی جماعت سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکمران جماعت اپنے بنیادی اصولوں سے دوری اختیار کر چکی ہے اور وہ اپنے ہم خیال افراد سے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ ایک نئی جماعت قائم کی جا سکے۔

علی باباجان کے بقول،'' انسانی حقوق، آزادی اظہار، عوامیت پسند جمہوریت اور قانون کی حکمرانی جیسی اقدار کا ہم نے ہمیشہ دفاع کیا ہے اور ہم  ان پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ اصول ہمارے لیے وقتی سیاسی ترجیح نہیں ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ان تمام تر کامیابیوں کے بعد ترکی کو آج جن حالات کا سامنا ہے یہ بہت ہی افسوسناک ہیں۔ ان کے بقول جب ان حالات کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو علم ہوا کہ حکومت نے ان تمام اقدار اور یہ تمام اصول پس پشت ڈال دیے ہیں۔

علی باباجان 'اے کےپی‘ کے بانی ارکان میں سے ایک ہیں۔ وہ اے کے پی کے پہلے دور میں وزیر معاشیات اور وزیر خارجہ کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں۔ اس کے بعد 2009ء میں انہیں نائب وزیر اعظم بنا دیا گیا تھا۔ وہ 2015ء تک اس عہدے پر براجمان رہے۔

بہت عرصے سے ایسی خبریں گردش کر رہی تھیں کہ باباجان 'اے کے پی‘ کے سابق صدر عبداللہ گل کے ساتھ مل کر ایک نئی حریف جماعت بنانا چاہتے ہیں۔ تاہم جون کے مہینے میں استنبول کے علاقائی انتخابات میں 'اے کے پی‘ کی ناکامی کے بعد نئی سیاسی جماعت کے قیام کی ان کی کوششوں میں تیزی آ گئی تھی۔

ارے! یہ ترک شہری آئی فونز کیوں توڑ رہے ہیں؟