1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایردوآن یورپی یونین کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے کوشاں

عاطف توقیر
3 جنوری 2018

ترک صدر رجب طیب ایردآن جمعے کے روز پیرس پہنچ رہے ہیں، جہاں وہ فرانسیسی صدر امانویل ماکروں سے ملاقات کریں گے۔ ایردوآن کا یہ دورہ یورپی یونین اور ترکی کے درمیان تعلقات میں کشیدگی میں کمی کو کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2qGQy
Tunesien Erdogan
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/H. Dridi

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق نئے سال کے آغاز کے موقع پر ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی کوشش ہے کہ گزشتہ برس انقرہ حکومت اور یورپی یونین کے درمیان تعلقات میں دیکھا جانے والا تناؤ کسی طور پر کم کیا جا سکے۔

ایردوآن ترکی کو ’فاشزم‘ کی جانب لے جا رہے ہیں، یوچیل

بریگزٹ معاہدہ ترکی اور یوکرائن کے لیے ماڈل ہو سکتا ہے، جرمنی

ترکی میں قید جرمن صحافی کی رہائی کا عدالتی حکم

ماکروں ایلیزے پیرس میں ترک صدر ایردوآن کی میزبانی کریں گے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان شامی تنازعے کے علاوہ باہمی اقتصادی تعاون میں اضافے پر بھی گفت گو ہو گی۔ اس کے علاوہ ماکروں ایردوآن کو ترکی میں انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے فرانسیسی تشویش سے بھی آگاہ کریں گے۔

تاہم ان دونوں رہنماؤں کے درمیان سب سے اہم موضوع ترکی اور یورپی یونین کے درمیان تعلقات ہیں۔ ترکی گزشتہ کئی برسوں سے یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے، تاہم گزشتہ برس اس حوالے سے اپنی خراب ترین سطح پر دیکھا گیا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فرانس کی قربت سے ترکی یورپی یونین میں شمولیت کی اپنی کوششوں کو تقویت دینا چاہتا ہے۔ یونیورسٹی آف پیرس کے سیاسیات کے شعبے کی پروفیسر اور ترک خارجہ پالیسی کے موضوع پر ایک کتاب کی مصنفہ ژانا جابووآ کے مطابق ایک ایسے موقع پر جب یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کیے جانے کے امریکی بیان کے بعد انقرہ حکومت اور واشنگٹن انتظامیہ کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پائی جاتی ہے، ایردوآن فرانس سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش میں ہیں۔

ترک صدر ایردوآن نے حالیہ کچھ عرصے میں روس، خلیجی اور افریقی ممالک کے متعدد دورے کئے، تاہم جولائی 2016ء میں ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد وہ یورپی ممالک شاذ ونادر ہی گئے۔ گزشتہ برس اگر جی ٹوئنٹی اور نیٹو سربراہی اجلاسوں کو ایک طرف کر دیا جائے، تو ترک صدر نے فقط پولینڈ اور یونان کا دورہ کیا۔

یہ بات اہم ہے کہ ترکی اور جرمنی کے درمیان تعلقات حالیہ کچھ عرصے میں شدید تر ہوئے ہیں۔ ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی میں جاری حکومتی کریک ڈاؤن پر برلن حکومت شدید تشویش کا ظہار کرتی ہے۔ اسی تناظر میں متعدد جرمن شہری بھی ترکی میں زیرحراست ہیں، مگر حالیہ کچھ عرصے میں کچھ جرمن باشندوں کو رہا بھی کیا گیا ہے۔