ایس سی او کا سربراہی اجلاس، اسلام آباد سیل کرنے کی تیاریاں
13 اکتوبر 2024پاکستان میں شنگھائی تعاون کی تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس سے دو روز قبل یعنی آج بروز اتوار دارالحکومت اسلام آباد میں سکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کے تحت شہر کو عام شہریوں اور ٹریفک کے لیے مکمل طور پر بند کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ یہ اہم اجلاس ایک ایسے وقت پر منعقد کیا جا رہا ہے، جب ملک کے مختلف علاقوں میں عسکریت پسندوں کے تشدد اور سیاسی عدم استحکام میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر، روسی وزیر اعظم میخائل میشوسٹن اور چینی وزیر اعظم لی چیانگ منگل اور بدھ کو منعقد کیے جانے والے اس اجلاس میں شرکت کرنے والے سینئر علاقائی حکومتی عہدیداروں میں شامل ہوں گے۔
اس سے قبل حکومت نے اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن، پشتون قوم پرست تحریک پی ٹی ایم پر پابندی اور دارالحکومت میں احتجاج کو محدود کرنے والے نئے قوانین متعارف کرائے ہیں۔
حکومت نے رواں ماہ کے شروع میں اسلام آباد میں مارچ کرنے کی کوشش کرنے والی اور جیل میں اسیر اپوزیشن لیڈر عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سینکڑوں حامیوں کو بھی گرفتار کر لیا تھا۔
گزشتہ ہفتے پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے شہر کراچی میں چینی انجینئرز کے قافلے پر ہونے والے مہلک حملے نے ایک ایسے ملک میں سکیورٹی سے متعلق خدشات کو مزید گہرا کر دیا تھا، جہاں علیحدگی پسند گروپ چینی شہریوں کو عام طور پر نشانہ بناتے آئے ہیں۔
حکومت نے پہلے ہی ایس سی او سمٹ کے دوران حفاظتی انتظامات کے تحت فوج تعینات کر رکھی ہے۔ سکیورٹی تجزیہ کار اور اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر امتیاز گل کا کہنا ہے کہ یہ اجلاس ایک ایسے ملک کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے جسے ''محفوظ نہیں سمجھا جاتا۔‘‘
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ''حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے وسیع تر حفاظتی انتظامات کیے ہیں اور یہ سمجھ میں بھی آتا ہے کہ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ یہ اجتماع بغیر کسی ناخوشگوار واقعے کے پرامن طریقے سے منعقد ہو سکے۔‘‘
شنگھائی تعاون کی تنظیم میں چین، بھارت، روس، پاکستان، ایران، قزاقستان، کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان اور بیلاروس شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مزید سولہ ممالک مبصر یا 'ڈائیلاگ پارٹنرز‘ کے طور پر بھی اس تنظیم سے وابستہ ہیں۔
اس اجلاس میں تنظیم کے رکن ممالک میں پاکستان کےبڑے حریف بھارت کے علاوہ دیگر تمام ملکوں سے ان کے سربراہان کی شرکت متوقع ہے جبکہ نئی دہلی کی جانب سے اپنے وزیر خارجہ کو پڑوسی ملک کے اس غیر معمولی دورے پر اسلام آباد بھجوایا جائے گا۔
ایس سی او کو بعض اوقات مغربی ممالک کے غلبے والے فوجی اتحاد نیٹو کا متبادل بھی کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ تائیوان پر چین کی ملکیت کے دعوے اور یوکرین پر روسی حملے نے ان دونوں عالمی طاقتوں کو امریکہ اور یورپ کے ساتھ تصادم میں لا کھڑا کیا ہے، ایسے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایس سی او ایک ایسا فورم ہے، جہاں وہ علاقائی اثر و رسوخ کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جہاں شنگھائی تعاون کی تنظیم کو سکیورٹی امور پر بات کرنے کا مینڈیٹ حاصل ہے، وہیں اسلام آباد سمٹ میں تجارت، انسانی اور ثقافتی امور پر بھی توجہ مرکوز رہے گی۔
تاہم امکان ہے کہ پاکستان کے مقامی مسائل اور خدشات اس سربراہی اجلاس کے موقع پر حاوی رہیں گے۔ پی ٹی آئی نے اس موقع پر احتجاج کرنے کی دھمکی دے رکھی ہے۔ پی ٹی آئی کے حامیوں نے ایک ہفتہ قبل بھی اسلام آباد میں مظاہرے کیے تھے، جس دوران دارالحکومت کو تین دن کے لیے بند کر کے موبائل فون کے سگنل اور انٹرنیٹ کنکشن منقطع کر کے شہر کے تمام داخلی اور خارجی راستے بند کر دیے گئے تھے۔
کل ہفتے کے روز ایک پریس کانفرنس کے دوران منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال چوہدری کا کہنا تھا، ''پی ٹی آئی پاکستان کے مثبت پہلو دنیا کو نہیں دکھانا چاہتی۔ اس کے بجائے، ان کا مقصد آنسو گیس اور بدامنی سے بھرے ملک کی تصویر پیش کرنا ہے۔‘‘
حکام نے ایس سی او اجلاس کے موقع پر اسلام آباد اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی کے لیے پیر سے تین روزہ عام تعطیل کا اعلان کر رکھا ہے، اس کے ساتھ ساتھ علاقے کے ارد گرد نقل و حرکت کم کرنے کے لیے سڑکیں بھی بند کر دی گئی ہیں۔ اس دوران ایس سی اور سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے والا اور دارالحکومت کا حساس ترین علاقہ ''ریڈ زون‘‘ انتہائی قرینے سے سجایا گیا ہے۔ اقتصادی بحران کا شکار پاکستان خاص طور پر چینی شہریوں کی حفاظت کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہے کیونکہ چین پاکستان میں ایک بڑا سرمایہ کار ملک ہے، جو کئی بلین ڈالر مالیت کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لیے فنڈز اور عملہ دونوں مہیا کر رہا ہے۔
ہمسایہ ملک افغانستان میں طالبان کی 2021 میں اقتدار میں واپسی کے ساتھ ہی پاکستان میں عسکریت پسندی میں وسیع پیمانے پر اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اسلام آباد حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ حملہ آور افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں تاہم افغان طالبان ان دعووں کی تردید کرتے آئے ہیں۔
ش ر⁄ م م (اے ایف پی)