1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'ایشیا کو امریکا کی ضرورت ہے، ٹرمپ کی نہیں‘

صائمہ حیدر الیگزانڈر فروئنڈ
25 دسمبر 2017

ایشیائی اقوام کے نقطہ نظر سے سن دو ہزار سترہ میں یہ واضح ہو گیا ہے کہ امریکا کی دنیا پر برتری کم ہوتی نظر آ رہی ہے جبکہ چین اب عالمی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو شعبہ ایشیا کے سربراہ الیگزانڈر فروئنڈ کا تبصرہ۔

https://p.dw.com/p/2pvJH
Philippinen Asean Gipfel Trump und Duterte
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Harnik

معاف کیجیے گا مسٹر ٹرمپ، شاید آپ موجودہ عالمی منظر نامے کو مختلف طور سے دیکھتے ہوں لیکن ایشیا کے لیے آپ سن 2017 کی سب سے اہم سیاسی شخصیت نہیں رہے ہیں۔

آپ اس خطے میں ذرائع ابلاغ کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں ضرور کامیاب رہے ہیں لیکن اس سے ایشیا کے ساتھ امریکی تعلقات میں وسعت جیسے نتائج سامنے نہیں آئے۔ آپ کی صدارت کا پہلا سال ایشیا کے لیے صرف ابہام اور عدم استحکام لے کر آیا ہے۔ اس کا آغاز آپ کی جانب سے سات مسلم ممالک کے باشندوں پر لگائے گئی سفری پابندیوں کے فیصلے سے ہوا تھا جس کے خلاف بہت تنقید بھی ہوئی۔ اور اب حال ہی میں آپ کا یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان سامنے آیا ہے۔

ان اقدامات سے آپ کا مقصد امریکا کو محفوظ بنانا تھا لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ ایشیا سمیت دنیا بھر میں مسلمان آپ کے مخالف ہو گئے۔ یہ بات البتہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ آپ کی جانب سے عائد کی گئی سفری پابندیوں والے ممالک میں ایران تو شامل ہے لیکن سعودی عرب اور پاکستان نہیں جہاں دہشت گردی کی نشوونما کی جاتی ہے یا پھر کم از کم اسے برداشت کیا جاتا ہے۔

علاوہ ازیں آپ نے پاکستان اور بالخصوص افغانستان کے لیے کوئی اطمینان بخش حکمت عملی بھی وضع نہیں کی۔ افغانستان سے امریکی فوجی دستوں کے انخلا کے حوالے سے بھی نہ تو آپ کے پاس کوئی حکمت عملی ہے اور نہ ہی کوئی بصیرتِ خیال۔

Freund Alexander Kommentarbild App
الیگزانڈر فروئنڈ، ڈی ڈبلیو

آپ کی حکومت نے روہنگیا مسلمانوں کے بحران سے متعلق کوئی اقدامات نہیں اٹھائے۔ میانمار میں روہنگیا اقلیت پر ڈھائے جانے والے مظالم اور وہاں سے اُن کی ہجرت کی رپورٹیں سامنے آنے کے باوجود بھی وائٹ ہاؤس انتظامیہ اس مسئلے پر خاموش رہی ہے۔

شمالی کوریا کی جانب سے مسلسل جوہری اور بیلسٹک میزائل تجربات کے باوجود بھی آپ ماسوائے ٹویٹ پیغاموں کا ایک لمبا سلسلہ جاری رکھنے کے علاوہ کوئی ٹھوس حکمت عملی اپنانے میں ناکام رہے ہیں۔ اس ایشین ملک پر ایک کے بعد ایک عالمی اقتصادی پابندیاں عائد کیے جانے کے باوجود بھی آپ اس کے مخاصمانہ رویے کو بدل نہیں سکے اور آخری حل اب پیونگ یانگ سے براہ راست مذاکرات کی صورت میں ہی نظر آتا ہے۔

آپ نے فلپائنی صدر روڈریگو ڈوٹیرٹے جیسے لوگوں کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا جو اپنی زبان سے خود کو قاتل کہتے ہیں۔ آپ بھارت کے ساتھ تجارتی تنازعے کا حل تلاش نہیں کر سکے لیکن اتنا ہوا کہ آپ نے دہلی کو اپنا قابل اعتماد دوست مان لیا۔

سب سے دلچسپ بات تو یہ ہے مسٹر ٹرمپ کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران آپ نے چین کے خلاف بیانات اور الزامات کی بوچھاڑ کر دی تھی لیکن چین کے دورے کے دوران بیجنگ حکومت نے آپ کی آمد کو معمول کی طرح لیا اور آپ کی جانب سے کی گئی تنقید کو نظر انداز کر دیا۔

آپ کی تباہ کن پالیسیوں کے سبب ہی آپ نے نہ صرف اپنی ساکھ گنوا دی ہے بلکہ وہ بے شمار مواقع بھی آپ کے ہاتھ سے نکل گئے ہیں جن سے عالمی جغرافیائی سیاست کو مثبت سمت میں موڑا جا سکتا تھا۔ لہٰذا مسٹر ٹرمپ، سن 2017  ایشیا کے اور آپ کے لیے اچھا سال نہیں رہا۔