ایشیائی، افریقی اور لاطینی امریکی ادب کے لئے پہلا بڑا جرمن انعام
11 اکتوبر 2009برلن کے ’’عالمی ثقافتوں کے گھر‘‘ نامی ادارے نے یہ انعام ہیمبرگ میں قائم فاؤنڈیشن ایلی مَینٹار ٹائلشن یعنی ایلی مینٹری پارٹیکلز کے ساتھ مل کر جاری کیا ہے۔ پچیس ہزار یورو مالیت کا یہ انعام حال ہی میں پہلی مرتبہ لاطینی امریکی ملک پے رُو کے ادیب ڈینٍئل الارکون کو دیا گیا۔
اِس سوال کے جواب میں کہ اس انعام کے اجراء کے پیچھے کیا اسباب کارفرما رہے، برلن کے ادارے ایچ کے ڈبلیو یعنی ’’عالمی ثقافتوں کے گھر‘‘ میں شعبہء ادب کی انچارج خاتون ڈاکٹر سُوزانے شٹیملر کا کہنا تھا:’’اب تک جرمنی میں بین الاقوامی ادب کے لئے کوئی بڑا انعام نہیں تھا۔ جرمن بُک پرائز تو ہے لیکن صرف جرمن کتابوں کے لئے۔ اِس بین الاقوامی ادبی انعام کے ذریعے ہم ایک ایسا پلیٹ فارم وجود میں لانا چاہتے تھے، جہاں سے جرمن زبان میں ترجمہ ہونے والے مختلف زبانوں کے ادب کی اہمیت کا اعتراف کیا جا سکے۔‘‘
اِس پہلے انعام کی تقریبِ تقسیم تیس ستمبر کو ہوئی۔ یہ پہلا بین الاقوامی ادبی انعام امریکہ میں آباد ادیب ڈینیئل الارکون کو دیا گیا ہے، جن کا تعلق بنیادی طور پر لاطینی امریکی ملک پے رُو سے ہے۔ یہ انعام ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے کسی ادیب کی جرمن میں ترجمہ ہو کر شائع ہونے والی اُس کی پہلی کتاب کے لئے دیا جایا کرے گا اور الارکون کو یہ انعام اُن کے پہلے ناول ’’لوسٹ سٹی ریڈیو‘‘ کے لئے دیا گیا ہے۔ اِس کتاب کو انگریزی سے جرمن میں منتقل کرنے والی مترجمہ فریڈریکے میلٹن ڈورف کو اُن کے شاندار ترجمے پر دَس ہزار یورو کا انعام دیا گیا۔
یہی کتاب کیوں انعام کی مستحق ٹھہری، اِس کا ذکر کرتے ہوئے سُوزانے شٹیملر کا کہنا تھا:’’الارکون اور اُس کی کتاب ’لوسٹ سٹی ریڈیو‘‘ کو منتخب کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اِس میں پے رُو میں آمریت کا احوال بڑی مہارت سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ ملک پےرُو بھی ہو سکتا اور دنیا کا کوئی اور ملک بھی، جسے آمریت کا سامنا ہو۔ اِس میں بتایا گیا ہے کہ کیسے مقامی باشندوں کو اُن کی شناخت سے محروم کرنے کے لئے اُن کے دیہات کے اصل اور روایتی نام ہٹا کر اُن کی جگہ ہندسوں اور اعداد پر مشمتل نام رائج کر دئے گئے۔ تقریباً تمام نو آبادیاتی طاقتوں نے یہی طریقہء کار اپنایا۔ اِس ناول کو انعام کے لئے چننے کی وجہ یہ بھی ہے کہ اِس میں کہانی کو بڑی خوبصورتی سے بُنا گیا ہے۔ ناول نگار تین مختلف کرداروں کی کہانی الگ الگ بیان کرتا ہے اور یہ کہانیاں بڑی خوبصورتی سے ایک دوسرےکے ساتھ جڑی بھی ہوئی ہیں۔ اِس میں اُس ریڈیو پروگرام کو مرکزی اہمیت ہے، جس میں خانہ جنگی کے دوران لاپتہ ہو جانے والے افراد کو تتلاش کیا جاتا ہے۔ ریڈیو کمپیئر نورما وہاں کے لوگوں کے لئے امید کی ایک علامت بن جاتی ہے۔‘‘
سوزانے شٹیملر نے بتایا کہ اِس انعام کے لئے 140 کتابیں نامزد تھیں، جن میں کئی ایشیائی اور افریقی ادیبوں کی کتابیں بھی تھیں۔ اِن کتابوں میں گذشتہ برس بکر پرائز جیتنے والے نوجوان بھارتی ادیب اروند اڈیگا کی کتاب ’’دا وائٹ ٹائیگر‘‘ اور پاکستان کے محمد حنیف کی پہلی کتاب ’’اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز بھی شامل تھی۔
محمد حنیف کے بارے میں سوزانے شٹیملر کا کہنا تھا:’’محمد حنیف کا ناول مجھے بھی اور پوری جیوری کو بھی بہت اچھا لگا۔ مَیں نے خود اِس سال مئی میں محمد حنیف کو یہاں برلن بلایا تھا اور یہاں اُن کے ساتھ ایک نشست رکھی تھی، جس میں اُنہوں نے اپنی کتاب ’’اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز‘‘میں سے اقتباسات پڑھ کر سنائے۔ ہم اِس بات سے بے حد متاثر ہوئے کہ کیسے ایک ہولناک واقعے کو طنز و مزاح کے ا نداز میں بیان کر دیا گیا ہے۔ محمد حنیف نے طنزیہ انداز اختیار کرتے ہوئے کچھ اِس طریقے سے کہانی بیان کی ہے کہ جس سے ہم مغربی یا یورپی قارئین ابھی تک واقف نہیں تھے۔‘‘
سوزانے شٹیملر کے مطابق پہلے انعام کی تقریبِ تقسیم بے حد شاندار رہی، جس میں الارکون اور اُن کے ناول کو جرمن زبان میں منتقل کرنے والی جرمن خاتون دونوں شریک ہوئے۔ شٹیملر نے یقین ظاہر کیا کہ آنے والے برسوں میں یہ انعام بے حد مقبولیت اختیار کر جائے گا۔