ایف سولہ لینے ہیں تو پورے پیسے خود دو
3 مئی 2016امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان جان کربی کے مطابق کانگریس میں حزب اختلاف کا مؤقف ہے کہ امریکی حکومت کے غیر ملکی افواج کو مالی تعاون فراہم کرنے کے مقصد کے لیے مختص کی جانے والی رقم ایف سولہ طیاروں کی خریداری میں استعمال نہیں کی جا سکتی، ’’ کانگریس کی جانب سے اس اعتراض کے بعد ہم نے پاکستان کو آگاہ کر دیا ہے کو اس مقصد کے لیے انہیں اپنی قومی فنڈ استعمال کرنا ہو گا ‘‘۔ کربی کے بقول دفتر خارجہ امریکی حکومتی فنڈز کے مشروط استعمال کی مخالفت کرتا ہے اور واشنگٹن کو یقین ہے کہ پاکستان کے ساتھ مؤثر روابط اور خاص طور پر انسداد دہشت گردی کی جنگ میں تعاون انتہائی اہم ہے۔ کربی کے مطابق یہ تعاون اس ملک میں جمہوریت کے فروغ اور معاشی استحکام کے لیے بھی اہم ہے۔
امریکی حکومت نے فروری میں پاکستان کو آٹھ ایف سولہ طیاروں کے ساتھ ساتھ ریڈار اور دیگر عسکری سامان کی فراہمی کی منظوری دی تھی، جس کی مالیت 699 ملین ڈالر بنتی ہے۔ تاہم ریپبلکن سینیٹر باب کورکر نے اس موقع پر کہا تھا کہ وہ سینیٹ میں بین الاقوامی تعلقات کی کمیٹی کے چیئرمین پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اس معاہدے پر عمل درآمد کو رکوانے کی کوشش کریں گے۔ ان کا مؤقف ہے کہ پاکستان کو عسکریت پسندی کو روکنے کے لیے مزید بہت کچھ کرنا ہو گا۔
ڈیموکریٹ اور ریپبلکن پارٹی کے متعدد ارکان کا خیال ہے کہ اسلام آباد حکومت کو ان عسکریت پسندوں کی حمایت ترک کرنی چاہیے، جو افغان اور امریکی دستوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان، افغانستان میں کابل حکومت اور طالبان کے مابین تصفیہ کرانے میں بھی ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔
ابھی کچھ عرصہ قبل وزیراعظم پاکستان نواز شریف کے خارجہ امور کے خصوصی مشیر طارق فاطمی نے شکایت کی تھی کہ واشنگٹن کی جانب سےان پاکستان کی کوششوں کی بہت کم ہی سراہا گیا ہے، جو اس نے امریکا کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کی ہیں۔ تاہم فاطمی نے اپنے اس بیان میں ایف سولہ طیاروں کا ذکر نہیں کیا تھا۔