1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہامریکہ

ایلون مسک اور ٹوئٹر کی جنگ: اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

5 اکتوبر 2022

دنیا کے امیر ترین شخص کی جانب سے لگائے گئے اندازوں میں غلطیوں نے ٹوئٹرکے ساتھ قانونی جنگ میں مسک کا موقف کمزور کر دیا۔ سر پہ کھڑی مقدمے کی سماعت اور اس کے علاوہ مسک کو سود کی ادائیگی کی بڑھتی ہوئی رقم کا سامنا بھی ہے۔

https://p.dw.com/p/4HnMt
USA Twitter Elon Musk
تصویر: Adrien Fillon/ZUMA Press Wire/picture alliance

ایلون مسک کی جانب سے  44 بلین ڈالر کے عوض ٹوئٹر کی خریداری کے معاہدے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اتفاق رائے کو اس امریکی ارب پتی کی طرف سے ایک حیرت انگیز خبر کے طور پر لیا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ویسے بھی ایلون مسک اپنے اعلانات کے ذریعے لوگوں کو ششدر کر دینا پسند کرتے ہیں۔ مسک سے منسلک اس خبر کے سامنے آنے کے بعد جہاں ٹوئٹرکے حصص کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، وہیں اس خبر نے میڈیا کی کاکردگی پر نظر رکھنے والے اداروں  اورانسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے تشویش کی گھنٹی بھی بجا دی۔

ان کی یہ تشویش اس بارے میں ہےکہ مسک کے زیر انتظام ٹوئٹر پر اظہار رائے کی آزادی کیسے  پروان چڑھے گی؟

تاہم مبصرین کے لیے یہ کوئی حیرت کی بات نہ تھی کیونکہ کئی مہینوں تک جاری رہنے والی قانونی جنگ میں ٹوئٹر نے دنیا کے اس امیر ترین شخص کو اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی خریداری  کے معاہدے کی تکمیل پر مجبور کر دیا۔  ایلون مسک نے اپریل میں ٹوئٹر خریدنے کے لیے کی گئی اپنی ابتدائی پیشکش کے بعد اس معاہدے سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی تھی جس پر انہیں ٹوئٹرکی جانب سے  ایک بہت بڑے قانونی چیلنج کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

 اس معاہدے کے حوالے سے مسک کی جانب سے لگائے گئے اندازوں میں ہوئی غلطیوں نے ٹوئٹرکے ساتھ قانونی جنگ میں ان کا موقف کمزور کر دیا۔ اب جبکہ اس مقدمے کی امریکی ریاست ڈیلاویئر میں باقاعدہ سماعت شروع ہونے سے قبل دو ہفتے سے بھی کم کا وقت باقی رہ گیا ہے، ایلون مسک کا کہنا ہے کہ وہ صرف اس مقدمے کی کارروائی روکے جانے کی صورت میں ہی ٹوئٹرکی خریداری کے معاہدے پر عمل درآمد کریں گے۔

فوری طور پر مسک کو ٹوئٹرکے وکلاء کی طرف سے اس کیس میں جمعرات کے روز ایک بیان کا سامنا پڑے گا۔

ایلون مسک نے ٹوئٹر خرید لیا، ٹرمپ کا اکاؤنٹ بحال ہو گا؟

ٹوئٹر اور مسک کی اب تک کی قانونی جنگ میں کیا ہوا:

ٹوئٹر کی خریداری سے پیچھے ہٹنے کے لیے مسک کی بنیادی دلیل کیا تھی؟

مسک کی دلیل بڑی حد تک اس الزام پر مبنی تھی کہ ٹوئٹر نے 'اسپیم بَوٹس‘ یا خود کار جعلی اکاؤنٹس کی صحیح تعداد جاننے کے لیے درست طریقہ کار اختیار نہیں کیا تھا۔ یہ خود کار اکاؤنٹس اشتہارات دینے والوں کے لیے بیکار  سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن ان کی یہ دلیل اس مقدمے کی باقاعدہ سماعت سے قبل کی عدالتی کاروائی کی سربراہ جج کو قائل نہ کر سکی۔ اس جج کی ساری توجہ اس بات پر مرکوز تھی کہ کیا ٹوئٹر اور ایلون مسک کے درمیان اپریل میں ہونے والے معاہدے کے بعد سے کوئی ایسی تبدیلی رونما ہوئی ہے، جو اس معاہدے کے خاتمے کو درست قرار دے سکے۔

اس سال کے اوائل میں نوکری سے نکالے گئےٹوئٹر کی سکیورٹی کے سابق سربراہ نے مسک کی اس دلیل کو تقویت بخشی۔

سائبر سکیورٹی کے ایک معروف ماہر پیٹر 'مج‘ زٹکو کی جانب سے  جولائی میں امریکہ کے وفاقی ریگولیٹرز اور محکمہ انصاف کے پاس درج کرائی گئی شکایات میں الزام عائد کیا گیاتھا کہ ٹوئٹر نے ریگولیٹرز کو لاکھوں 'اسپیم اکاؤنٹس‘ کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے سائبر دفاع  کے بارے میں گمراہ کیا۔ بوسٹن کالج لاء اسکول کے پروفیسر برائن کوئن نے کے مطابق زٹکو کے انکشافات سے مسک کی مدد 'دورکی کوڑی‘ لانے جیسی  تھی۔‘‘  کوئن کے بقول  آخر میں زٹکو کے انکشافات  قانونی صورتحال میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہ لا سکے۔

ٹوئٹر خریدنے کے لیے مسک کے نقطہ نظر نے ان کے مقدمےکو نقصان پہنچایا؟

کوئن نے کہا، ''وہ (مسک) کافی لاپرواہ تھے۔‘‘ مسک کے ٹوئٹر کے ملکیتی حقوق کے کافی بڑے حصے کا مالک ہونے اور کمپنی کے بورڈ میں شامل ہونے سے متعلق حال ہی میں مسک اور دوسروں کے مابین پیغامات کے تبادلوں کے  جاری کردہ متن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس معاہدے پر خوش تھے۔  تاہم انہوں نے اپریل کے آخر میں انضمام کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد چیزوں کا جائزہ لینا شروع کیا۔ کوئن کے مطابق معاہدے کے بعد مسک نے کمپنی کے بارے میں مناسب احتیاط، قریبی معائنہ، اور بَوٹس کے بارے میں شکایات درج کرنا شروع کر دیں۔ کوئن کے بقول ہو سکتا ہے کہ اتنی بڑی کمپنی خریدنے والے ایک شخص کی طرف سے اس طرح کی سوچ شاید جج کو متاثر نہ کر پائی ہو۔

میں ایلون مسک کیسے بنا؟

مسک نے اپنا ذہن اب کیوں تبدیل کیا؟

سر پہ آ چکی مقدمے کی سماعت اور جمعرات کے لیے مقرر کردہ بیان کے علاوہ، مسک کو ممکنہ سود کی بڑھتی ہوئی رقم کا سامنا بھی ہے۔ اگر مسک یہ مقدمہ ہار جاتے ہیں،  تو عدالت نہ صرف انہیں معاہدہ پورا کرنے پر مجبور کر سکتی ہے بلکہ ان کو اصل رقم کے ساتھ ساتھ سود کی ادائیگی  کا پابند بھی بنایا جا سکتا ہے، جس سے اس معاہدے کی مجموعی لاگت میں مزید اضافہ ہو جائےگا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر ستمبر کے وسط سے سود کی رقم بڑھنا شروع ہو چکی ہے۔ لیکن یقیناﹰ یہ معاہدہ ابھی تک نہیں ہوا اور ابھی تک قانونی رکاوٹیں موجود ہیں، جن کا عبور کیا جانا ابھی باقی ہے۔ مسک کےماضی اور ان کے موڈ میں یکدم آنے والی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے یہ فرض کرنا غلطی ہوگا کہ وہ اس معاملے میں بھی سیدھے ہی چلتے رہیں گے۔

ش ر ⁄  م م (اے پی)