ایم ایچ 17 کی تباہی کا ایک سال، ذمہ دار کون؟
17 جولائی 2015ملائشیئن ایئر لائنز کی پرواز ایم ایچ 17 کے حادثے میں کل 298 افراد ہلاک ہوئے تھے، ان میں سے 38 کا تعلق آسٹریلیا سے تھا۔ آج جمعے کے روز آسٹریلوی وزیر اعظم ٹونی ایبٹ نے مرنے والے ان افراد کے لیے دارالحکومت کینبرا میں قائم کی جانے والی ایک یادگار کا افتتاح کیا۔ یہاں پر ایک تختی پر اس حادثے کا شکار ہونے والوں کے نام درج ہیں اور یہ تختی اُس مٹی پر نصب کی گئی ہے، جو ایک پولیس افسر جائے حادثہ سے اپنے ساتھ لے کر آیا تھا۔ اس موقع پر ایبٹ نے کہا، ’’مجھے علم ہے کہ جس جگہ اس طیارے کو تباہ کیا گیا وہ ہمارے لیے اہم مقام ہے اور اس کا کچھ حصہ آسٹریلیا کے پاس واپس آنا چاہیے تھا۔ اس طرح ایک جہاز کو تباہ کرنا سفاکی ہے‘‘۔ اس کے بعد ٹونی ایبٹ اور ان کی اہلیہ نے اس یادگار پر پھول چڑھائے۔ اس موقع پر ہلاک ہونے والے مسافروں کے لواحقین بھی موجود تھے۔
آسٹریلیا، بیلجیئم، ملائیشیا، ہالینڈ اور یوکرائن نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس حادثے کی تباہی میں ملوث افراد کو سزا دینے کے حوالے سے ایک خصوصی فوجداری عدالت قائم کرے۔کییف حکومت اس واقعہ کی ذمہ داری مشرقی یوکرائن کے روس نواز باغیوں پر عائد کرتی ہے جبکہ باغیوں اور روس کا موقف ہے کہ یہ یوکرائن کا کیا دھرا ہے۔
مغربی اقوام کو شک ہے کہ اس مسافر بردار طیارے کو باغیوں نے روسی ساختہ ’ BUK ‘ میزائل سسٹم کے ذریعے نشانہ بنایا ہے۔ اس سلسلے میں عینی شاہدین کے بیانات، تصاویر اور ویڈیو سے ملنے والے شواہد اکھٹے کیے گئے تھے۔ اس واقعے کی تفتیش ہالینڈ کی ایک ٹیم نے مکمل کر لی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ تفتیشی رپورٹ اکتوبر تک پیش کر دی جائے گی۔ ہالینڈ کے حکام نے کہا ہے کہ وہ ابھی تک اصل ذمہ دار تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔
ایمسٹرڈیم سے کوالالمپور جانے والی اس پرواز کو مشرقی یوکرائن پر سے گزرتے ہوئے میزائل سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس جہاز کا ملبہ ڈونیٹسک کے قریب توریس نامی علاقے سے ملا تھا۔ ہلاک ہونے والے مسافروں میں سے 192 ہالینڈ کے شہری تھےجبکہ 43 کا تعلق ملائیشیا سے تھا۔ اس کے علاوہ اس بدقسمت جہاز پر اّسی سے زائد بچے بھی سوار تھے۔