ایم کیو ایم کا بھارتی ہائی کمشنر کو مدد کے لیے خط
6 اگست 2015خط کے متن میں کہا گیا ہے کہ ایم کیو ایم کے چار کارکن 29 جولائی کو دیگر آٹھ افراد کے ساتھ حیدرآباد جاتے ہوئے لاپتہ ہوئے تھے۔ پاکستان میں متعین بھارتی ہائی کمشنر، ٹی سی اے راگھوان کو لکھے گئے خط پر ایم کیو ایم کے رہنماؤں عارف خان ایڈووکیٹ، عبدالقادر خانزادہ اور شبیر قائم خانی کے دستخط ہیں۔ اس خط میں کہا گیا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنان ولید کمال، شایان رحمان، سعد ہاشمی اور اسد رضا تاحال پاکستانی ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں اور ان کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے۔
لیکن خط سے متعلق خبر آنے کے بعد سے ایم کیو ایم خود تصادات کا شکار ہے۔ سینئر رہنما فاروق ستار نے دعوٰی کیا ہے کہ اس حوالے سے کسی کو خط نہیں لکھا اور یہ کسی رہنما کی تیکنیکی غلط ہوسکتی ہے ایسا دانستہ طور پر نہیں کیا گیا۔
مبصرین کے مطابق ایم کیو ایم، پے در پے غلطیاں کر کے خود اپنے لیے مشکلات میں اضافہ کررہی ہے۔
قومی اسمبلی کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے فاروق ستار نے کہا کہ خط غلطی سے ہندوستان کے ہائی کمشنر کے ایڈریس پر ای میل ہوگیا ہوگا یا کسی رہنما نے ای میل کی فہرست میں موجود ایڈریس پر غلطی سے خط ارسال کر دیا ہوگا۔
مگر ایم کیو ایم کے ایک اور رہنما وسیم اختر کی رائے ڈاکٹر فاروق ستار سے بالکل مختلف ہے۔ وسیم اختر کا کہنا ہے کہ خط کوئی خفیہ دستاویز نہیں ہے۔ کارکنوں کی گرفتاریوں کے حوالے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کئی ممالک کو خط لکھے گئے ہیں۔ اس سے قبل ایم کیو ایم نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو بھی خط ارسال کیا تھا۔
تجزیہ کار وسیم اختر کی رائے سے متفق دکھائی نہیں دیے۔ جن کے مطابق ایم کیو ایم پر ہمیشہ سے بھارتی خفیہ ادارے کی مدد کا الزام ہے اور ایم کیو ایم اس الزام سے کبھی پیچھا نہیں چھڑا سکی۔
پاکستان کے ایک سینیئر صحافی قیصر محمود کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے متعلق عام تاثر یہی ہے کہ مشکل حالات میں یہ جماعت زیادہ منظم انداز میں ابھر کر سامنے آتی ہے کیونکہ اردو بولنے والے افراد کی اکثریت کی رائے ایم کیو ایم کے حق میں ہوجاتی ہے: ’’لیکن اس مرتبہ مشکلات پہلے سے زیادہ ہیں۔ بھارت سے نا چاھتے ہوئے بھی قائم ہوجانے والے تعلق کا ادراک ایم کیو ایم کو بھی ہے جبھی لندن میں محمد انور کو پہلی بار پریس کانفرنس بلا کر اپنے پاکستانی ہونے کی ثبوتوں کے ساتھ وضاحت کرنا پڑی ہے۔‘‘