فرانس کے کم عمر ترین صدر، ماکروں دوبارہ منتخب
25 اپریل 2022ایمانوئل ماکروں کی فتح کو فرانس میں دائیں بازو کی انتہا پسندی کے خلاف ایک بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔ ماکروں کو اس بارکے الیکش میں بطور صدر دوبارہ منتخب ہونے کی وجہ سے ایک ایسے سیاستدان کی حیثیت سے دیکھا جا رہا ہے جس نے محض پانچ سال میں عالمی سیاسی منظر نامے پر ایک اہم کھلاڑی کے طور پر اپنی ساکھ بنا لی ہے۔ فرانس کو اس وقت یورپی یونین کا ایک اہم فیصلہ ساز رکن ملک مانا جا رہا ہے۔ خاص طور سے روس اور یوکرین کی موجودہ جنگ کے خاتمے کی کوششوں کے لیے فرانس اس وقت غیر معمولی کردار ادا کر رہا ہے۔
44 سالہ اعتدال پسند سیاستدان ماکروں اپنی بلا توقف سفارتکاری کے ساتھ نہ صرف ملک میں اپنے لیے سیاسی راہ ہموار کرنے میں کامیاب ہوئے بلکہ انہوں نے عالمی سطح پر بھی اپنی جگہ بنا لی ہے۔ اس وقت یوکرین بحران کے حوالے سے ان سے گہری توقعات وابستہ کی جا رہی ہیں۔
فرانس میں صدارتی انتخابات: آپ کو کیا کچھ معلوم ہونا چاہیے؟
اس بار کے فرانسیسی صدارتی انتخابات میں یورپی سیاست کے بہت سے معاملات داؤ پر لگے ہوئے تھے۔ ماکروں یورپی یونین کے اتحاد کے حامی ہیں اور انہوں نے یورپی انضمام کا وعدہ کر رکھا ہے۔ دوسری جانب مارین لے پین اس بلاک میں بنیادی تبدیلیاں لانے کی خواہش مند ہیں۔ ناقدین لے پین کے اس منصوبے کو 'فریگزٹ‘ کا نام دیتے ہیں۔ یہ بالکل بریگزٹ کی طرح ہے یعنی جیسے برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہو گیا تھا۔ ماکروں کی حریف خاتون سیاستداں مارین لے پین مہاجرین مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ مسلم مخالف بھی ہیں اور انہوں نے کہا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد عوامی مقامات پر نقاب پہننے پر بھی پابندی عائد کر دیں گی۔
صدر ماکروں نے کھلے الفاظ میں اس منصوبے کی مخالفت کی تھی تاکہ انہیں مسلمان ووٹروں کی حمایت حاصل ہو سکے۔ تاہم ووٹنگ سے پہلے لے پین کی ٹیم نے یہ تجویز واپس لے لی تھی اور کہا تھا کہ یہ موضوع اب 'ترجیحی‘ نہیں رہا۔
یوکرین جنگ کے حوالے سے بھی ان دونوں صدارتی امیدواروں کے مابین اختلافات ہیں۔ صدر ماکروں کا کہنا ہے کہ لے پین یوکرین تنازعے سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں کیوں کہ ان کی پارٹی نے روسی چیک بینک سے قرض لے رکھا ہے۔
گزشتہ شب یعنی اتوار کو ماکروں نے اپنی فتح کے اعلان کے بعد تقریر کے لیے پیرس کے مشہور آئفل ٹاور کے مقام کا انتخاب کیا۔ ماکروں فرانس کی خاتون اول کے ساتھ آئفل ٹاور کے سامنے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے عوام کے ساتھ یکجہتی اور ملک کی خوشحالی کے عزم کا اظہار کر رہے تھے۔
ک م/ا ب ا) اے پی(