’ایٹمی معاہدے سے نہ ڈریں‘ قطر میں جان کیری کی یقین دہانی
3 اگست 2015جان کیری وِیک اَینڈ پر مصر کے دورے کے بعد اتوار کی شام قطر کے دارالحکومت دوحہ پہنچے۔ مصر میں انہوں نے اپنے ہم منصب سامح حسن شُکری اور صدر عبدالفتاح السیسی سے ملاقات کے دوران ان رہنماؤں کو یقین دلایا کہ ایران کے ساتھ طے پانے والا تاریخی ایٹمی معاہدہ مشرق وسطیٰ کے خطے کے لیے سلامتی اور استحکام کا سبب بنے گا۔
مصری وزیر خارجہ کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جان کیری کا کہنا تھا، ’’اس بارے میں کوئی شکوک و شبہات نہیں پائے جاتے کہ اگر ویانا پلان پر مکمل عملدرآمد ہوا تو مصر اور خطے کے تمام دیگر ممالک پہلے سے کہیں زیادہ محفوظ ہوں گے‘‘۔
کیری کے بقول مشرق وسطیٰ کا خطہ اس سے پہلے کبھی اتنا محفوظ نہیں تھا جتنا کہ تہران اور دنیا کی چھ بڑی طاقتوں کے ساتھ ایران کے ایٹمی معاہدے کے طے پانے کے بعد سے ہوا ہے۔
امریکا کی طرف سے بارہا اس امر کی یقین دہانی کے باوجود سعودی عرب اور دیگر علاقائی ریاستیں ایران کو مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہی ہیں اور اُن کا خیال ہے کہ ایران کے ساتھ ہونے والی ایٹمی ڈیل پورے خطے کو غیر مستحکم کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔
جان کیری نے اپنے بیان میں مزید کہا تھا کہ امریکا کو اس امر کا ادراک ہے کہ ایران خطے کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور اس لیے ایران کے ایٹمی پروگرام کو مکمل طور پر پُر امن رکھنے کے عمل کو یقینی بنانا بہت ضروری ہے۔ قاہرہ میں ایک پریس کانفرنس میں جان کیری کا کہنا تھا، ’’اگر ایران خطے کو غیر مستحکم بنا رہا ہے تو بغیر جوہری اسلحے کے ایران کا وجود اُس کے اسلحے کے ساتھ ہونے سے کہیں زیادہ ضروری ہے‘‘۔
پیر کو جان کیری سعودی عرب کے حلقہٴ اثر میں شامل خلیجی عرب ملکوں کی سُنی خلیجی تعاون کونسل کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ملاقات کر رہے ہیں۔ ان مذاکرات میں امریکی وزیر ان خلیجی ریاستوں کے لیڈران کے شیعہ ایران کے بارے میں خدشات دور کرنے کی کوشش کریں گے۔
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک اہلکار کے بیان کے مطابق، ’’یہ جان کیری کے لیے ایک سنہری موقع ہے، خلیجی ممالک کے وزراء کے ساتھ تفصیلی بات چیت کے ذریعے اُن کے اذہان میں موجود تمام تر سوالات کے جواب دینے کا تاکہ خلیجی حکمرانوں کو مطمئن کیا جا سکے اور اس طرح امریکا کی کوششوں کو آگے بڑھانے کے لیے ان ممالک کا تعاون حاصل کیا جا سکے‘‘۔
اُدھر ایرانی صدر حسن روحانی اتوار کو اپنے ٹیلی وژن خطاب میں کہہ چُکے ہیں کہ 14 جولائی کو طے پانے والے جوہری معاہدے سے مشرق وسطیٰ کے دو بد ترین بحرانی علاقوں، شام اور یمن کے مسائل کا تیز رفتار حل ممکن ہو گیا ہے۔ روحانی کا کہنا تھا، ’’شام اور یمن کے بحرانوں کا حتمی حل سیاسی حل ہی ہے‘‘۔ ایران اور چھ بڑی طاقتوں اور ایران کے مابین طے پانے والے ایٹمی معاہدے سے علاقے میں ایک نئی فضا پیدا ہو گی، معاملات سہل تر ہو جائیں گے‘‘۔