1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک اتحاد کا اختتام

کشور مصطفیٰ1 جولائی 2016

25 سال پہلے، وارسا پیکٹ تحلیل ہو گیا تھا جس کے چند سال بعد، نیٹو کی مغربی سرحد مشرق کی طرف منتقل کر دی گئی۔ اُن تاریخی واقعات کے سیاسی اثرات آج تک محسوس کیے جا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1JHMR
تصویر: picture-alliance/CTK

وارسا پیکٹ کے سات رکن ممالک کے پرچم کے سامنے مختلف یونیفارم میں ملبوس سپاہی کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ وارسا پیکٹ کے خاتمے میں میخائیل گورباچوف کا جتنا اہم کردار رہا اتنا ہی اُنہوں نے اُس وقت کے سیاسی منظر نامے سے خود کو دور رکھنے کی کوشش کی۔ یکم جولائی 1991ء کو پراگ میں منعقد ہونے والے مشرقی بلاک کے اجلاس میں گورباچوف نے اپنے ایک نمائندے جیناڈی ژانایف کو بھیج دیا تھا۔ جیناڈی نے اُس وقت کی مشرقی یورپی ریاست چیکوسلواکیہ کے صدر اور سابق باغی واکلاف ہاول کا وہ بیان سنا جس میں انہوں نے کہا تھا،’’آج وارسا پیکٹ کا وجود ختم ہو گیا۔‘‘ اس بیان کی ہر طرف سے پذیرائی ہوئی مگر جیناڈی ژانایف خاموش رہے۔

جرمن ڈیمو کریٹک ریپبلک جی ڈی آر کا الوداع کہنا

مشرقی اتحاد 36 سالوں تک قائم رہا۔ اس کی بنیاد 1955 ء میں وارسا میں رکھی گئی تھی۔ سات ریاستوں نے اس معاہدے پر دستخط کیے جس کی بنیاد دوستی، اشتراک عمل اور باہمی تعاون پر رکھی گئی تھی۔ اس معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک میں سابقہ سویت یونین، جرمن ڈیمو کریٹک ریبپلک جی ڈی آر، سابقہ چیکوسلواکیہ، ہنگری، رومانیہ، بلغاریہ اور پولینڈ شامل تھے۔ بہت جلد ہی یہ بات ثابت ہو گئی تھی کہ وارسا پیکٹ محض دفاعی اتحاد نہیں تھا بلکہ مشرقی یورپ میں سوویت یونین کے سیاسی تسلط اور کنٹرول کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔ اس کی واضح ترین مثالیں 1956ء کی ہنگیرین بغاوت اور1968ء میں ’پراگ بہار‘ کے خلاف وارسا پیکٹ کی فوج کا کریک ڈاؤن ہیں۔

Tschechoslowakei Prager Frühling Demonstranten zwischen Panzern
1968ء کی ’پراگ بہار‘ کے خلاف وارسا پیکٹ کی فوج کا کریک ڈاؤنتصویر: picture-alliance/dpa/L. Hajsky

وارسا پیکٹ کا تشہیری پوسٹر

وارسا پیکٹ کے تمام تر تشہیری مواد میں جس مقولے پرسب سے زیادہ زور دیا جاتا تھا، وہ تھا،’ایک ہی جماعت اور مسلح گروپ کے برادران‘۔ 80 کی دہائی میں سیاسی تبدیلی کا آغاز ہوا: پولستانی مزدور تحریک ’یکجہتی‘۔ سوویت یونین میں اصلاحات جنہیں ’گلازنوسٹ اور پیرسٹروئیکا‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس کے بعد آئرن کرٹن یا آہنی پردے کا گرنا، دیوار برلن کا انہدام اور جلد ہی جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے موضوع پر بات چیت کا آغاز۔’’ہمیں بہت سے معاملات نمٹانا تھے، بہت سی چیزیں واضح کرنا تھیں۔ مثال کے طور پر کیا متحدہ جرمنی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا ممبر بن سکتا ہے؟ اور یہ کہ سوویت فوجی کب جرمنی سے نکلیں گے؟۔‘‘ یہ تمام باتیں ہورسٹ ٹلٹشک یاد کر رہے ہیں جو اُس وقت کے جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل کے مشیر تھے۔

ستمبر 1990 ء میں جرمنی کے دوبارے اتحاد سے محض چند روز قبل جرمن ڈیمو کریٹک ریپبلک جی ڈی آر وارسا پیکٹ سے دستبردار ہو گیا تھا۔ پیپلز آرمی کے قریب تین لاکھ ساٹھ ہزار اہلکار چند روز کے اندر اندر نیٹو کے سپاہی بن چُکے تھے۔ اسی طرح 1994 ء تک سابقہ سویت یونین کےبہت سے فوجی مشرقی جرمنی چھوڑ چُکے تھے جس کے لیے تب بون نے ماسکو کو تقریباً چار بلین جرمن مارک ادا کیے تھے۔