ایک اور ریپ، بھارت میں بڑھتے جنسی جرائم پر عوام کا غم و غصہ
16 اپریل 2018بھارت میں بڑھتے ہوئے جنسی جرائم کے خلاف اور ان جرائم کا شکار ہونے والوں کے لیے انصاف کے مطالبے کے ساتھ ملک کے متعدد شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان مظاہروں نے 2012ء میں میڈیکل کی ایک طالبہ کے ساتھ ہونے والی اجتماعی جنسی زیادتی اور اس کی ہلاکت کے بعد ہونے والے ملک گیر مظاہروں کی یاد تازہ کر دی ہے۔ مظاہرین بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے اس معاملے پر کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں، جنہوں نے اس معاملے میں کارروائی کا وعدہ کیا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکام ایسے جرائم کی تفتیش میں سست روی اور ذمہ دار ملزمان کی گرفتاری میں تاخیر کر کے دراصل خواتین کے تحفظ میں ناکام ہو رہے ہیں۔
مظاہروں کا آغاز بھارتی ریاست اتر پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رکن پارلیمان کی ایک نوجوان لڑکی سے جنسی زیادتی کے الزام میں گرفتاری کے بعد ہوا۔ اتر پردیش کی صوبائی حکومت بھی وفاق میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ہی کی ہے۔
ایک نو عمر لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کا تازہ واقعہ بھارتی ریاست گجرات کے شہر سورت میں پیش آیا۔ سورت کے پولیس کمشنر ستیش شرما کے مطابق، ’’لڑکی کی لاش چھ اپریل کو ایک ہائی وے کے قریب سے ملی تھی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اس لڑکی کو پانچ اپریل کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔‘‘
شرما کا کہنا تھا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اس لڑکی کی عمر محض 11 برس تھی تاہم ابھی تک اس کی شناخت نہیں ہو سکی اور اسی باعث ارد گرد کے علاقوں کی پولیس کو مطلع کر دیا گیا ہے کہ وہ اس لڑکی کے ورثاء کی تلاش میں مدد کرے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس جرم کے ذمہ دار افراد کی تلاش کے لیے سینیئر پولیس افسران کی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔
اس سے قبل بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھی ایک آٹھ سالہ بچی کو اغواء کیے جانے اور پھر اسے مسلسل جنسی زیادتی کا شکار بنائے جانے کے بعد قتل کر دینے کا واقعہ بھی پیش آ چکا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جب تک اس واقعے کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع نہیں ہوا، حکام کی جانب سے اس کی تفتیش میں کوئی قابل ذکر پیشرفت نہیں ہوئی تھی۔
بھارت میں سال 2016ء کے دوران جنسی زیادتی کے 40 ہزار کیس درج کیے گئے تھے۔ یہ تعداد 2012ء کے مقابلے میں 25 ہزار زیادہ تھی۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ ہزاروں کیس ایسے بھی ہوتے ہیں جو پولیس کو رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے۔
ا ب ا / م م (روئٹرز)