1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک ویڈیو کئی شکار: کون گھائل، کون قائل ہوگا

7 جولائی 2019

پاکستان مسلم لیگ نون کی رہنما مریم نواز کی طرف سے نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو سامنے لانے کے بعد پاکستان کے سیاسی اور قانونی حلقوں میں بھونچال کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/3Lhr4
Tanveer Shehzad Blogger Urdu
تصویر: privat

مریم نواز کی یہ پریس کانفرنس اس تیر کی مانند نہیں تھی جو صرف اپنے نشانے پہ جا لگتا ہے بلکہ یہ ’انکشاف انگیز‘ پریس کانفرنس مشین گن کے اس برسٹ کی طرح تھی جس کی زد میں بہت سارے لوگ آ جاتے ہیں۔

بظاہر اس مبینہ ویڈیو میں جج ارشد ملک، مسلم لیگ نون کے ایک کارکن ناصر بٹ سے گفتگو کرتے نظر آ رہے ہیں جنہیں جج صاحب بتا رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف ثبوت نہیں اور انہیں ملنے والی سزا دباؤ کے باعث سنائی گئی ہے۔ مریم نواز کے بقول جج کو ان کی 'ذاتی زندگی کی کوئی ویڈیو‘ دکھا کر بلیک میل کیا گیا۔

قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ اس ویڈیو کا پہلا شکار تو احتساب عدالت کے جج ارشد ملک بنیں گے جنہیں اس ویڈیو کے درست ثابت ہونے پر ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جج ارشد ملک کا موقف ہے کہ یہ ایک جھوٹی، فرضی اور جعلی ویڈیو ہے اور اس پریس کانفرنس کا مقصد ان کے فیصلوں کو متنازعہ بنا کر سیاسی فوائد حاصل کرنا ہے۔ جج صاحب نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ انہیں شریف خاندان کے نمائندوں کی طرف سے رشوت کی پیشکش کی گئی تھی۔

مسلم لیگ نون کی رہنما مریم اورنگ زیب نے اس پر یہ سوال اٹھایا ہے کہ اگر رشوت کی پیشکش کی گئی تھی تو جج صاحب اتنا عرصہ خاموش کیوں رہے؟ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ مبینہ طور پر رشوت کی پیشکش کرنے والوں کے خلاف عدالت کی طرف سے کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔

اس ویڈیو کا دوسرا شکار پاکستان میں عدلیہ کا نظام ہے جس پر سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔ وکلا رہنماؤں کے مطابق اس ویڈیو نے پورے عدالتی نظام پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جج ارشد ملک سپریم کورٹ کے جج کی نگرانی میں کام کرتے رہے ہیں۔

اس ویڈیو کا تیسرا شکار وہ لوگ ہیں جنہوں نے، بقول مریم نواز کے، جج صاحب کو ان کی ایک قابل اعتراض ویڈیو دکھا کر بلیک میل کیا۔ عدالتی نظام میں طاقتور حلقوں کی مداخلت پاکستان کے قانونی اور آئینی حلقوں میں موضوع بحث بنی رہتی ہے لیکن جسٹس شوکت صدیقی اور جسٹس قاضی فائز عیسی کے حوالے سے سامنے آنے والے واقعات کے بعد اب اس مسئلے کو اس ویڈیو نے ایک نئے انداز میں اجاگر کیا ہے۔

اس ویڈیو کا چوتھا شکار میڈیا ہے، جس پر اس ویڈیو اور اس سے متعلقہ مخصوص خبروں کو نشرکرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے نئے دباؤ کا سامنا ہے۔

سچ پوچھیں مجھے تو اس ویڈیو کا شکار شہباز شریف بھی لگتے ہیں، جن کی پریس کانفرنس میں بیٹھے ہوئے 'باڈی لینگویج‘ بھی اس بات کی تصدیق کرتی رہی کہ وہ ایک ایسے بیانیے کے ساتھ چلنے پر مجبورکر دیے گئے ہیں جس کے وہ کبھی حامی نہیں رہے ہیں۔

London Pakistan Nawaz Sharif Tochter Maryam Nawaz
حکومت اور مسلم لیگ نون، دونوں اس ویڈیو کے 'فرانزک آڈٹ‘ پر متفق ہو گئے ہیںتصویر: Reuters/H. McKay

ویسے بھی صحافتی حلقوں میں یہ بات دلچسپی سے نوٹ کی جا رہی ہےکہ مبینہ ویڈیو کے حوالے سے پریس کانفرنس کرنے والی مریم نواز نے اس دوران پارٹی کے نائب صدر اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو اپنے دائیں جانب اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کا رویہ اپنانے کی سوچ رکھنے والے پارٹی صدر شہباز شریف کو اپنے بائیں جانب بٹھا کر 'سیویلین بالا دستی‘ کا پیغام دیا۔

مبینہ ویڈیو کا ایک اور شکار حکومت کی حمایت کرنے والے وہ لوگ بھی ہیں، جو اپنے سارے دلائل کے باوجود اس واقعے کے بعد دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

یہ ویڈیو اُن لوگوں کو بھی تشویش میں مبتلا کرنے کا باعث بنی ہے جن کو 'شرارتی‘ قرار دے کر مریم نواز نے کہا تھا کہ اگر شرارت کی گئی تو ان کے پاس ابھی اور بھی ویڈیوز موجود ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ حکومت اور مسلم لیگ نون، دونوں اس ویڈیو کے 'فرانزک آڈٹ‘ پر متفق ہو گئے ہیں۔

مبصرین کے مطابق تازہ صورت حال کا فائدہ سابق صدر آصف زرداری کو بھی ہو سکتا ہے کیونکہ جج ارشد ملک ان کے کیس کی بھی سماعت کر رہے ہیں، جب کہ احتساب کا عمل متنازع ہونے کا فائدہ اپوزیشن جماعتوں کو بھی ہو سکتا ہے کیوں کہ حکومت پر دباؤ بڑھانے کا ایک اور موقع ان کے ہاتھ آ گیا ہے۔

یہ مبینہ ویڈیو ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب وزیر اعظم عمران خان کو امریکا اور روس جیسے اہم دوروں پر بھی جانا ہے۔ اپوزیشن کی تحریک میں تیزی آنا شروع ہو گئی ہے اور عدالتوں سے نواز شریف کو خرابی صحت یا میرٹ کے حوالے سے ریلیف ملنے کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔

اگرچہ 'ایگزکٹ جعلی ڈگری کیس‘ میں یہ دیکھا گیا تھا کہ جج کی طرف سے رشوت لینے کے اعتراف پر مقدمے کی دوبارہ سماعت ہوئی تھی۔ اسی طرح 'ملک قیوم کیس‘ میں بھی عدالت کا فیصلہ ہمارے سامنے ہے، لیکن اس سب کے باوجود اس کیس میں یہ بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی کہ اس ویڈیو کے ریلیز کیے جانے سے نواز شریف کو قانونی طور پر کوئی فائدہ ہو سکے گا یا نہیں کیوں کہ ابھی بہت سے سوالوں کے جواب آنا باقی ہیں۔ اس ویڈیو کے حقیقی یا جعلی ہونے کے تعین کے لیے اس کا فرانزک آڈٹ ابھی ہونا باقی ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ناصر بٹ عدالت میں کیا موقف اختیار کرتے ہیں اور عدالت اس ویڈیو کو بطور شہادت قبول کرتی بھی ہے یا نہیں۔

عدالتی محاذ پر اس ویڈیو کی اہمیت ہو یا نہ ہو، لیکن قریب سبھی تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ اس ویڈیو کی 'پراپیگنڈا ویلیو‘ موجود رہے گی۔ اس کا جلسوں میں ذکر بھی رہے گا اور کالموں میں حوالے بھی دیے جائیں گے۔ اگر مسلم لیگ نون اس ویڈیو کو لے کر دباؤ بڑھانے میں کامیاب ہوگئی تو پھر اس کے اثرات کافی نمایاں ہو سکتے ہیں، بصورت دیگر یہ 'انکشاف انگیز ویڈیو‘ بھی قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کے حوالے سے پچھلے دنوں سامنے آنے والی ویڈیو کی طرح بے اثر ہو جائے گی۔