1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

ایک ہزار ارب ڈالر سے زائد کی گلوبل منی لانڈرنگ کا انکشاف

21 ستمبر 2020

امریکی وزارت خزانہ کی خفیہ دستاویزات سے انکشاف ہوا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر فعال بہت سے بڑے بڑے بینک اپنی ناقص کارکردگی اور لاپروائی کے باعث عالمی سطح پر ایک ٹریلین ڈالر سے زائد کی منی لانڈرنگ میں شریک رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3inNT
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert

یہ پریشان کن انکشاف صحافیوں کے ایک انٹرنیشنل نیٹ ورک کی طرف سی کی گئی طویل چھان بین کے بعد ممکن ہوا۔ اس انکشاف کی بنیاد وہ خفیہ رپورٹیں بنیں، جو دنیا کے مختلف بینکوں نے مالیاتی جرائم کی روک تھام کے نیٹ ورک یا 'فِن سَین‘ (FinCEN) کو جمع کرائیں۔

فنانشل کرائمز انفورسمنٹ نیٹ ورک کی ان فائلز سے پتا چلا ہے کہ مشکوک مالی ادائیگیوں کی صورت میں کی جانے والی اس منی لانڈرنگ میں جرمنی کے سب سے بڑے اور دنیا کے بہت بڑے بڑے بینکوں میں شمار ہونے والے ڈوئچے بینک نے بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ ان میں سے بہت سی ادائیگیاں ایران اور روس جیسے ممالک کے خلاف عائد کردہ بین الاقوامی پابندیوں اور ان کی شرائط پورا کرنے سے بچنے کے لیے کی گئیں۔

'فِن سَین‘ امریکی وزارت خزانہ کا ذیلی دفتر

فنانشل کرائمز انفورسمنٹ نیٹ ورک امریکی وزارت خزانہ کا ایک ذیلی دفتر ہے۔ اس دفتر کی اب منظر عام پر آ جانے والی بےتحاشا دستاویزات سے یہ اشارے ملتے ہیں کہ جرمنی کا ڈوئچے بینک اس امر سے باخبر تھا کہ وہ ایک مالیاتی ادارے کے طور پر ایسی مشکوک ادائیگیوں کا حصہ بن رہا تھا، جن کی مجموعی مالیت ایک ٹریلین ڈالر سے بھی زیادہ تھی۔

türkisch-iranischer Geschäftsmann Reza Zarrab
سونے کا تاجر اور ایرانی نژاد ترک شہری رضا ضرابتصویر: Depo Photos/AP Photo/picture alliance

یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ اس بینک نے مبینہ طور پر ان ادائیگیوں کے لیے اپنی خدمات اس وقت بھی مہیا کیں، جب وہ پہلے ہی یہ وعدہ بھی کر چکا تھا کہ وہ آئندہ صرف رقوم کی شفاف اور غیر مشکوک منتقلی میں ہی حصہ لے گا۔

صحافتی چھان بین کا دائرہ کار

اس انکشاف کی وجہ بننے والی فائلیں سب سے پہلے بَز فیڈ نیوز نے حاصل کیں اور پھر انہیں تحقیقاتی صحافت کرنے والے صحافیوں کے ایک بین الاقوامی کنسورشیم کو مہیا کر دیا گیا۔ اس کنسورشیم ICIJ نے اس ڈیٹا کی گزشتہ 16 ماہ کے دوران 88 ممالک میں 400 صحافیوں کی مدد سے پوری چھان بین کرائی۔ پھر جو نتائج اخذ کیے گئے، انہوں نے بینکاری کے بین الاقوامی شعبے کی اصل کارکردگی کو بے نقاب کر دیا۔

جہاں تک جرمنی کے ڈوئچے بینک کا تعلق ہے، تو اس ادارے نے اپنے ہاں سے رقوم کی مشکوک منتقلی کے جن واقعات کی امریکا میں فنانشل کرائمز انفورسمنٹ نیٹ ورک کو اطلاع دی، وہ FinCEN کو رپورٹ کیے گئے ایسے واقعات کا 62 فیصد بنتے ہیں۔ ایسی رپورٹوں کو بینکاری کی زبان میں Suspicious Activities Reports یا SARs کہتے ہیں اور ان کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ یہ رپورٹ مصدقہ طور پر کسی مالیاتی جرم کا ثبوت بھی ہے۔

دو ٹریلین ڈالر کی مشکوک منتقلی

ان دستاویزات کے مطابق 1999ء اور 2017ء کے درمیان پوری دنیا میں مجموعی طور پر دو ٹریلین ڈالر (1.68 ٹریلین یورو) کی ٹرانزیکشنز ایسی تھیں، جنہیں مشکوک قرار دے کر فِن سَین کو اطلاع کی گئی تھی۔ ایسی اطلاعات دیے جانے کی وجوہات اکثر یہ ہوتی ہیں کہ متعلقہ رقوم کی منتقلی شاید کالے دھن کو سفید بنانے، بین الاقوامی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یا پھر مجرمانہ سرگرمیوں سے ہونے والی آمدنی پر پردہ ڈالنے کے لیے کی جا رہی ہے۔

ڈوئچے بینک رقوم کی اس عالمگیر منتقلی کے عمل میں اتنا زیادہ شامل رہا تھا کہ جن دو ٹریلین ڈالر کی ٹرانسفر کی کئی برسوں کے دوران FinCEN کو اطلاعات دی گئیں، ان میں سے 1.3 ٹریلین ڈالر یا تقریباﹰ 1.1 ٹریلین یورو صرف جرمنی کے ڈوئچے بینک کے ذریعے منتقل کیے گئے تھے۔

ڈوئچے بینک کو ماضی میں کیا گیا جرمانہ

یورپ کے بہت بڑے بینکوں میں شمار ہونے والا ڈوئچے بینک ماضی میں بھی کئی ایسے معاملات میں ملوث رہا ہے، جن کی وجہ سے اسے بہت بڑے جرمانے بھی کیے گئے تھے۔

اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ماضی میں اس ادارے نے جو مشکوک مالی ادائیگیاں کی تھیں، ان کے امریکی پابندیوں کے برخلاف ہونے اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے 2015ء میں اس بینک کو 258 ملین ڈالر جرمانہ بھی کیا گیا تھا۔ تب اس بینک نے اس جرمانے کی ادائیگی پر اتفاق کیا تھا اور یہ ادا کر بھی دیا تھا۔

ایران کو کرنسی کے بجائے سونے میں ادائیگی

ان خفیہ دستاویزات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایران کے خلاف عائد بین الاقوامی پابندیوں کے تحت جب ایرانی بینکوں کو SWIFT نامی گلوبل ٹرانزیکشن سسٹم سے خارج کر دیا گیا تھا، تو ایران کے لیے یہ ممکن نہیں رہا تھا کہ اسے اس کے برآمدی تیل اور گیس کے لیے ادائیگیاں انٹرنیشنل بینک ٹرانسفر کے ذریعے کی جا سکیں۔

تب ان پابندیوں کے اثرات سے بچنے کے لیے ایران نے کرنسی کے بجائے سونے کی شکل میں یہ ادائیگیاں قبول کرنا شروع کر دی تھیں۔

اس کام میں ایرانی نژاد ترک شہری رضا ضراب نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

رضا ضراب سونے کا تاجر تھا اور اس کے ذریعے ایران کو اربوں ڈالر کی ادائیگیاں اسی قیمتی دھات کی شکل میں کی گئی تھیں۔

رضا ضراب کا اعتراف جرم

رضا ضراب نے 2017ء میں ایک امریکی عدالت میں یہ اعتراف کر لیا تھا کہ وہ اپنی سرگرمیوں کے ذریعے اس امر کا مرتکب ہوا تھا کہ امریکی پابندیوں کے اثرات سے بچنے کے لیے ایران کی مدد کرے۔

ضراب کو دسمبر 2013ء میں ترکی سے منی لانڈرنگ اور سونے کی اسمگلنگ کے الزامات کے تحت گرفتار کر لیا گیا تھا۔

فِن سَین دستاویزات کے منظر عام پر آنے سے ہونے والے انکشافات نے واضح کر دیا ہے کہ کس طرح دنیا کے مختلف ممالک میں بظاہر بہت شفاف بینکاری کرنے والے بڑے بڑے نامی گرامی ادارے بھی عالمی سطح پر ایسی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں، جن کے ذریعے مروجہ قوانین اور ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رقوم کی مشکوک منتقلی کی گئی یا مالیاتی جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔

پیلِن اُئنکر (م م / ا ا)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں