بابا جی کو قاضی فائز عیسیٰ کا انتظار تھا
5 جون 2020پوچھنے لگے ' بیٹی! یہ قاضی فائز عیسیٰ کا کیس کس کمرے میں لگا ہے ؟‘
میں نے کہا کہ میرے ساتھ ہی چلیے ، میں وہیں جا رہی ہوں۔
ان دنوں سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق کیس سپریم کورٹ کا دس رکنی بینچ سن رہا ہے۔ کسی بھی دیگر عدالتی کارروائی کی طرح یہ مقدمہ بھی خاصا خشک سا ہے۔
ایک حکومتی وکیل قانون کی کتابیں الٹ پلٹ کر تاویلیں پیش کر رہا ہے، دس جج بیٹھے کبھی سر ہلاتے ہیں، کبھی سوال کرتے ہیں اور کبھی غیر متاثر کن دلائل کے غبارے میں سوئی چبھو کر ساری ہوا نکال دیتے ہیں۔ اس میں بھلا کسی بابے کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔
مقدمے کے ایک فریق سپریم کورٹ کے جج ہیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جن پر ٹیکس بچانے، بیرون ملک جائیداد خریدنے کا الزام ہے۔ دوسرا فریق حکومت پاکستان ہے۔ سو یہ بھی طے تھا کہ بابا جی اس کیس میں فریق نہیں۔
ان کی عمر میں اسپیشل برانچ کے اہلکار ریٹائر ہو جاتے ہیں سو یہ کوئی سن گن لینے والا 'فرشتہ ‘بھی نہیں ہو سکتے تھے۔ میں نے بینچ قریب آتے ہی پوچھا کیا آپ صحافی ہیں؟ کہنے لگے ''میں ریٹائرڈ پروفیسر ہوں۔ بیٹی ! قاضی فائز عیسیٰ ہمارا مقدمہ لڑ رہا ہے، وہ قانون کی بالادستی کے مقدمے کا وکیل ہے، وہ اپنے والد کی طرح اڑ گیا ہے کہ انجام چاہے جو بھی نکلے، جو حق ہوگا وہ تو کہہ کر رہے گا، میں اسے سننے آیا ہوں۔‘‘
میں نے کہا بابا جی دس ججز بیٹھ کر اس مقدمے میں وفاقی حکومت کی بدنیتی ڈھونڈ رہے ہیں۔ سیانے اس ریفرنس کو فیض آباد دھرنے کے کیس میں جسٹس قاضی کے لکھے فیصلے کا ردعمل کہتے ہیں۔ مبصرین اسے ٹیکس بچانے یا جائیداد چھپانے کا مقدمہ ماننے کو تیار نہیں،آپ کیا کہتے ہیں؟ ''بیٹی ! آپ کے سوال میں ہی تو جواب ہیں ۔‘‘یہ کہہ کر بابا جی مسکرا تے ہوئے بینچ نمبر ایک میں داخل ہو گئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے مقدمے میں بینچ کا حصہ ہیں نہ ہی مقدمے کی کارروائی دیکھنے آتے ہیں مگر سلام ہے کہ بابا جی بینچ نمبر ایک کی اگلی نشستوں پر سماعت کے آخر تک بیٹھے رہے۔ شاید انہیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا انتظار تھا۔
آج سے چار سال پہلے میں نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ دوران سماعت کسی ایک نکتے پر اڑ جائیں تو جواب لیے بغیر نہیں ٹلتے۔ وہ بحیثیت جج کسی اور کا مقدمہ مطمئن ہوئے بغیر نہیں سنتے کجا یہ کہ مقدمہ خود اپنے ہی خلاف ہو۔
اس لیے یہ تو طے ہے کہ جب تک وفاقی حکومت قاضی کے خلاف ریفرنس کی کوئی تُک نہیں سمجھا دیتی، قاضی صاحب نہ ٹک کر بیٹھیں گے نہ ہی سپریم کورٹ کو ٹلنے دیں گے۔ اور رہا وفاقی حکومت کے جواب کا معاملہ، وہ تو کیس کی سماعت سے اندازہ ہو ہی رہا ہے کہ حکومتی وکیل کی زنبیل میں جتنے جواب تیار تھے، وہ پڑے کے پڑے ہی رہ گئے، یہاں تک کہ ججز مزید سوالات سے انہیں لاجواب کررہے ہیں۔
پہلے تاثریہ تھا کہقاضی فائز عیسیٰ کے کیس میں کیا ہوا، کیا ہونے جا رہا ہے، بھلا عوام کو اس سے کیا؟ یہ تو ہاتھیوں کی لڑائی ہے چیونٹی بیچاری کس کی سائیڈ لے اس کی کیا اوقات۔ مگر آج باباجی سے مل کر اندازہ ہوا کہ قاضی فائز عیسیٰ کا مقدمہ عوام کے لیے کتنا اہم ہو سکتا ہے۔
مقدمے کی سماعت کے بعد پروفیسر فتح ملک کے گھر بیٹھک لگی، پروفیسر فتح کو تاریخ پاکستان کے موضوع پر اتھارٹی مانا جاتا ہے۔ میں نے آج ملنے والے بابا جی کا ذکر چھیڑ دیا۔ فتح صاحب کہنے لگے کہ جس کسی نے بھی پاکستان بننے کی تاریخ پڑھ رکھی ہے وہ جانتا ہے کہ آج اگر بلوچستان پاکستان کا حصہ ہے تو وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے والد قاضی محمد عیسیٰ کی کوششوں کی بدولت ہے۔
قاضی محمد عیسیٰ نے بلوچستان میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی، یہ قائداعظم کا بازو سمجھے جاتے تھے، جو اپنے پیسے، وقت اور خاندانی اثر و رسوخ کو مسلم لیگ کے حق میں استعمال کرتے رہے، قانون دان تھے، علم و ادب کے حلقوں میں مشہور تھے۔
پروفیسر طاہر ملک اب تک اپنے ابا کے سامنے خاموش بیٹھے تھے، کہنے لگے کہ علم و ادب سے اس خاندان کا رشتہ اب بھی ہے، کچھ عرصہ پہلے اتفاقاً جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے اسلام آباد کے ایک کتب میلے میں ملاقات ہوئی۔ ایک ادبی سیشن میں کافی بھیڑ تھی، اسی بھیڑ میں جسٹس قاضی فائز کہیں کونے سے لگے کھڑے تھے۔ ہاتھ میں کتابوں کا بڑا سا تھیلا پکڑ رکھا تھا۔ کوئی گارڈ تھا نہ کوئی پروٹوکول ۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مقدمے کی تفصیلات سے اخبارات بھرے پڑے ہیں۔ ججز ایک ساتھی جج کے خلاف بے سر وپا مقدمہ تحمل سے سن تو رہے ہیں مگر بے چینی عیاں ہے۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ جج کے خلاف ریفرنس بنانے کا یہ 'برائٹ آئیڈیا‘ کسے سوجھا تھا؟ جسٹس مقبول باقر نے تو کیس کے نتائج آنے کا اشارہ بھی دیا ہے۔ ادھر بیرسٹر فروغ نسیم حکومتی وکیل بن کر ججز کے سوالوں پر کبھی ' نمی دانم ‘ اور کبھی ' مجھے معلوم تو ہے پر نہیں بتاوں گا ‘ سے کام چلا رہے ہیں۔
قاضی فائز عیسیٰ کیس کی اس الجھن سلجھن میں کچھ وقت لگے گا۔ حکومت سے قاضی فائز عیسیٰ نے جو سوال بطور درخواست گزار پوچھے تھے، ان پر مُہر اب دس ججز مل کر لگا رہے ہیں ۔ شاید سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک میں ابھی کچھ اور بابے مہمان بنیں۔