1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بابری مسجد فیصلہ: ہندو فریق خوش، مسلم غیر مطمئن

جاوید اختر، نئی دہلی
9 نومبر 2019

بھارت میں تمام شعبہ حیات پر غیر معمولی اثرات مرتب کرنے والے بابری مسجد تنازعہ میں سپریم کورٹ کے آج کے فیصلے کا ہندو فریق نے خیر مقدم کیا جب کہ مسلم فریق نے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3SjtG
Indien Tempel Urteil Babri Moschee
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Walton


بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد تمام شہریوں سے امن، ہم آہنگی اور اتحاد برقرار رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے مندر نے دہائیوں پرانے معاملے کونہایت خوش اسلوبی سے حل کردیا ہے۔ مودی نے ٹوئٹر پر اپنے ردعمل میں کہا، ”ملک کی عدالت عظمی نے اجودھیا پر اپنا فیصلہ سنادیا ہے۔ اس فیصلے کو کسی کی ہار یا جیت کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ 'رام بھگت ہوں یا رحیم بھگت‘ یہ وقت ہم سب کے لیے بھارت بھگت کے جذبے کو مستحکم کرنے کا ہے۔ اہل وطن سے میری اپیل ہے کہ امن، خیر سگالی اور اتحاد برقرار رکھیں۔"

انہوں نے مزید کہا ”ہمارے ملک کی ہزاروں سال قدیم بھائی چارے کی روایت کے مطابق ہم 130کروڑ بھارتیوں کو امن اور تحمل کا ثبوت دینا ہے۔ بھارت کو پرامن بقائے باہمی کے جذبے کا ثبوت دینا ہے‘‘۔ وزیر اعظم مودی کے بقول سپریم کورٹ کا فیصلہ کئی حوالوں سے اہم ہے، ''یہ فیصلہ واضح کرتا ہے کہ کسی تنازعے کو حل کرنے میں قانونی طریقہ کار پر عمل کتنا اہم ہے۔ ہر فریق کواپنے اپنے دلائل دینے کے لیے خاطر خواہ وقت دیا گیا۔‘‘

Indien Hindu-Nationalisten fordern den Bau eines Tempels
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain

 عدالتی فیصلہ

اس سے قبل ہفتے کی صبح  سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بینج نے پانچ سو سال سے زائد قدیم اجودھیا کی بابری مسجد رام جنم بھومی تنازعہ میں متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے 2.77 ایکڑ متنازعہ اراضی شری رام جنم بھومی ٹرسٹ کو سونپنے اور سنی وقف بورڈ کو مسجد کی تعمیر کے لیے اجودھیا میں ہی پانچ ایکڑ اراضی دینے کا فیصلہ سنایا۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس ایس عبدالنظیر پر مشتمل آئینی بنچ نے اس حساس معاملے میں اپنا تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ متنازعہ مقام پر بھگوان رام کے جنم کے خاطر خواہ شواہد ہیں۔ اجودھیا میں بھگوان رام کا جنم ہندووں کی عقیدت کا معاملہ ہے اوراس پر کوئی تنازعہ نہیں ہے۔

مسجد کی کوئی قیمت و بدل نہیں
دوسری طرف اس تنازعہ میں مسلم فریق سنی وقف بورڈ اور آل انڈیا پرسنل لاء بورڈ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس سے پوری طرح مطمئن نہیں ہیں۔ پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری ایڈووکیٹ ظفریاب جیلانی نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا، ”وہ فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں لیکن اس سے پوری طرح مطمئن نہیں ہیں۔ وہ فیصلے کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعد مستقبل کے لائحہ عمل پر غوروخوص کریں گے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ ملک کے آئین اور سیکولر نظریات کے حساب سے یہ فیصلہ اہم ہے لیکن سپریم کورٹ  نے ان کی امید پوری نہیں کی۔ مسلم فریق کو مسجد کے لیے علیحدہ زمین دینے سے متعلق سوال پر جیلانی کا کہنا تھا کہ مسجد کی کوئی قیمت نہیں لگائی جا سکتی اور نہ ہی کوئی چیز اس کی بدل ہو سکتی ہے۔

Indien - Hindu Nationalismus
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Armangue

فیصلے کی تائید مگر غیر مطمئن
مسلمانوں کی ایک دوسری تنظیم جماعت اسلامی ہند کے سربراہ سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ عدالت کے فیصلے سے وہ بھی پوری طرح سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان کے بقول سول سوسائٹی میں لاء اینڈ آرڈر کی بڑی اہمیت ہے لہٰذا وہ اس فیصلے کو قبول کریں گے۔ انہوں نے ملک کے باشندوں سے امن اور سکون قائم رکھنے کی اپیل کی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرنسل لاء بورڈ کے کنوینرکمال فاروقی کا کہنا تھا کہ بابری مسجد کی زمین کے بدلے اگر مسلم فریق کو سو ایکڑ بھی زمین دی جاتی تو وہ لاحاصل ہے، کوئی فائدہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی 67 ایکڑ زمین حکومت نے پہلے ہی تحویل میں لے لی ہے توپھر مل کیا رہا ہے محض پانچ ایکڑ زمین۔


یہ فیصلہ سنگ میل ثابت ہو گا
وفاقی وزیر داخلہ اور حکمراں بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے ٹوئٹر پر اپنے ردعمل میں کہا،”میں شری رام جنم بھومی پر اتفاق رائے سے آئے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ میں تمام فرقوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس فیصلے کو دل سے تسلیم کرتے ہوئے امن اور خیر سگالی سے بھرپور بھارت۔ (سریشٹھ(بہترین بھارت کے اپنے عزم کے عہد بندھے رہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ تاریخی فیصلہ اپنے آپ میں سنگ میل ثابت ہوگا۔ یہ فیصلہ 'ہندوستان کے اتحاد‘ سالمیت اور عظیم ثقافت کو مزید تقویت فراہم کرے گا۔"

قوم پرست ہندو تنظیموں اور حکمراں بی جے پی کی ذیلی تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”ماضی کی تمام تلخیوں کو بھلا کر ہم سب شری رام جنم بھومی پر عظیم الشان مندر کی تعمیر کی اپنی ذمہ داری پوری کریں گے۔ اس فیصلے کو ہار او ر جیت کے نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے۔"

Indien Hindu-Nationalisten fordern den Bau eines Tempels
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain

عدالتی فیصلے کے ساتھ ہی، ملک میں کئی دہائیوں پرانا تنازعہ بھی حل ہو گیا اور اس فیصلے نے اجودھیا میں شری رام مندر کی تعمیر کی راہ بھی ہموار کردی۔ انہوں نے تاہم اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ کیا ہندو بابری مسجد کے بعد اب کاشی اور متھرا کی مساجد پر بھی اپنا دعوی برقرار رکھیں گے۔ خیال رہے کہ ہندو شدت پسند تنظیمیں بھارت میں سینکڑوں مساجد پر اپنادعوی کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مساجد مندروں کو توڑ کر بنائی گئی تھیں۔

کانگریس کا موقف
اپوزیشن جماعت کانگریس نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی پارٹی رام مندر کی تعمیر کے حق میں ہے اور عدالت نے جو فیصلہ دیا ہے، اسے سبھی فرقے کے لوگوں کو ملک کی سیکولر اقدار کا احترام کرتے ہوئے اسے قبول کرنا چاہیے۔ قبل ازیں سپریم کورٹ کا فیصلہ آتے ہی سپریم کورٹ کے احاطے میں جے شری رام کے نعرے لگائے گئے۔ بہت سے وکلاء بھی نعرے بازی میں شامل تھے۔

مسلسل چالیس دنوں تک جرح
عدالت عظمی نے گزشتہ ماہ سولہ اکتوبر کو اس معاملے یں اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔تاریخ کے صفحات کو پلٹے ہوئے، مذہبی عقائد اور روایات نیز آثار قدیمہ کے شواہد کو سامنے رکھ کر اجودھیا کی متنازعہ زمین سے متعلق مقدمہ پر چالیس دن تک مسلسل جرح ہوئی تھی۔ بھارتی سیاست پر تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اثر انداز اس تنازعہ کی سماعت کے دوران بابری مسجد کی زمین پر اپنے دعوے کا حق جتانے والے  ہندو اور مسلمان دونوں فریقین نے اپنے اپنے دلائل دیے۔ اس تنازعے کو حل کرنے کے لیے عدالت عظمی کی طرف سے ریٹائرڈ جسٹس محمد ابراہیم خلیف اللہ کی قیادت میں قائم تین رکنی ثالثی پینل کی طرف سے ثالثی کی کوشش ناکام رہنے کے بعد آئینی بینچ نے مسلسل سماعت کی اور تمام فریقین کو اپنا اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا۔

Indien Ayodhya Ruine Babri Moschee
تصویر: Getty Images/AFP/D. E. Curran