بابری مسجد کے ارد گرد کا علاقہ مسلمانوں کی ملکیت یا ہندوؤں کی؟
20 ستمبر 20101992 میں بر صغیر پاک و ہند کی علاقائی تاریخ کے بدترین فرقہ وارانہ فسادات میں سے ایک کی وجہ بابری مسجد کے انہدام کا واقعہ بنا تھا۔ شمالی بھارتی ریاست اتر پردیش میں ایودھیا کے مقام پر قائم مسجد کے ارد گرد کے علاقے کی ملکیت پر ایک صدی سے بھی زیادہ عرعے سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین جھگڑا چل رہا ہے۔ ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ بابری مسجد جس جگہ پر تعمیر کی گئی تھی وہ اُن کے سب سے بڑے دیوتا رام کی جائے پیدائش ہے اور 16 ویں صدی میں برصغیر کی طرف آنے والے مسلم حملہ آوروں نے وہاں پر موجود ہندو مندر کو ڈھا کر مسجد تعمیر کی تھی۔ تاریخی طور پر مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین تنازعے کا باعث بنے اس مسئلے نے 1992 میں اُس وقت خونریز شکل اختیار کر لی تھی، جب ہندو انتہا پسندوں کے ایک گروپ نے بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا اور اُس کے بعد ایودھیا میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات نے ہندوستان کی تاریخ میں فرقہ وارانہ خونریزی کا ایک نیا باب رقم کیا تھا۔ پُرتشدد فسادات کے اُن واقعات میں دو ہزار مسلمان مارے گئے تھے۔
آئندہ جمعہ کو عدالت کیا فیصلہ دے سکتی ہے؟
عدالت دراصل تین کلیدی معاملات پر غور کرے گے اور اُس کی بنیاد پر ہی فیصلہ سنائی گی کہ ایودھیا کے علاقے کی زمین کس کی ملکیت ہے۔ اس ضمن میں اہم نکات یہ ہیں کہ آیا ایودھیا کا متنازعہ علاقہ واقعی رام کی جائے پیدائش ہے؟ کیا بابری مسجد کی تعمیر اُس جگہ پر قائم ایک ہندو مندر کو ڈھانے کے بعد عمل میں لائی گئی تھی؟ اور یہ کہ آیا بابری مسجد کی تعمیر اسلامی قواعد و ضوابط کے تحت عمل میں آئی تھی؟
فیصلہ جو بھی ہو، بھارتی ہندوؤں کی پوری کوشش ہے کہ ایودھیا میں متعلقہ مقام پر پھر سے اُن کی عبادت گاہ یعنی ایک مندر کی عمارت تعمیر کی جائے جبکہ بھارتی مسلمانوں کی خواہش ہے کہ اُن کے اسلامی ورثے کی حیثیت رکھنے والی تباہ شدہ بابری مسجد کی جگہ اب ایک نئی مسجد بنائی جائے۔
تنازعے کے سیاسی مضمرات
بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے کہا ہے کہ ایودھیا کا یہ متنازعہ مسئلہ سال رواں میں بھارت کو درپیش اہم ترین سکیورٹی مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ ہے۔ ایک طرف بھارت میں ماؤ نواز باغیوں نے سر اُٹھایا ہوا ہے تو دوسری جانب کشمیری علحیدگی پسندوں کی سر گرمیاں بھی ان دنوں عروج پر ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر نئی دہلی حکومت نے گزشتہ ہفتے جاری کی گئی ایک اخباری اپیل میں عوام سے آئندہ جمعہ کو ایودھیا کے متنازعہ معاملے پر عدالت کی طرف سے سامنے آنے والے کسی بھی فیصلے پر صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنے کو کہا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالت کا کوئی بھی فیصلہ حکمران جماعت کانگریس کو ایک مشکل صورتحال سے دوچار کر دے گا۔ ہندو قوم پرستوں کی خواہشات کے مطابق فیصلہ سنائے جانے کی صورت میں کانگریس اپنا سیکولر پارٹی کا امیج کھو دے گی۔ دوسری طرف مسلمانوں کے حق میں ہونے والے فیصلے سے ہندو قوم پرست مزید مشتعل ہو جائیں گے۔
گزشتہ نومبر میں بھارتی پارلیمان میں بہت زیادہ ہنگامہ آرائی بھی ہوئی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ حکومت کی طرف سے پیش کردہ ایک رپورٹ میں 1992 کے ایودھیا کے فسادات کا ذمہ دار اپوزیشن کی ہندو قوم پرست پارٹی بی جے پی کو ٹھہرایا گیا تھا۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ہندوؤں کے خلاف ہونے والا کوئی بھی فیصلہ سیاسی دارالحکومت میں اقتدار کی بھارتیہ جنتا پارٹی کو منتقلی کا باعث بن سکتا ہے۔ یاد رہے کہ بھارت کی آبادی کا 80 فیصد ہندوؤں پر مشتمل ہے۔تاہم ایودھیا سے متعلق عدالت کا جو بھی فیصلہ سامنے آئے گا اُسے سپریم کورٹ میں یقیناً چیلنج کیا جائے گا اور یوں حتمی فیصلے میں سالوں لگ سکتے ہیں۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک