1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بارہ جون، چائلڈ لیبر کے خلاف عالمی دن

عنبرین فاطمہ12 جون 2014

پاکستان میں بھی یہ دن ہر سال روایتی جوش وخروش سے منایا جاتا ہے تاہم ماہرین کے مطابق قوانین کی موجودگی کے باوجود ملک میں چائلڈ لیبرکی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1CH1X
تصویر: imago/Eastnews

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق دنیا بھر میں ایک اندازے کے مطابق 168 ملین بچے مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جن کی عمر18 سال سے کم ہے۔ پاکستان کا شمار بھی دنیا کے ان چند ایک ممالک میں ہوتا ہے جہاں چائلڈ لیبر کی تعداد میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیم سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چلڈرن SPARC کے مطابق ملک بھر میں تقریباﹰ ایک کروڑ 2 لاکھ بچے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں 60 لاکھ بچے 10 سال سے بھی کم عمر کے ہیں۔

Indien Kinderarbeit
دنیا بھر میں 168 ملین بچے مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔تصویر: imago/imagebroker

پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد کا حتمی اندازہ لگانا مشکل ہے جو مختلف سیکٹرز میں مشقت پر مجبور ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جو سرکاری اعداد و شمار موجود ہیں وہ 18 برس قبل اکھٹے کیے گئے تھے۔ یعنی سرکاری سطح پر آخری بار سن 1996 میں سروے کیا گیا تھا۔ اس کے مطابق ملک کے 40 ملین بچوں میں سے تقریاﹰ 3.3 ملین بچے مشقت پر مجبور تھے۔ ان میں 73 فیصد تعداد لڑکوں کی جبکہ 27 فیصد تعداد لڑکیوں کی تھی۔ سب سے زیادہ چائلڈ لیبر صوبہ پنجاب میں پائی گئی، جہاں 1.9 ملین بچے چائلڈ لیبر کے زمرے میں آئے۔ صوبہ سرحد (خیبر پختونخواہ) میں یہ تعداد ایک ملین، صوبہ سندھ میں 2 لاکھ 98 ہزار جبکہ بلوچستان میں 14ہزار بچوں کی تعداد ریکارڈ کی گئی۔

SPARC کے بورڈ ممبر ایڈوکیٹ انیس جیلانی کے مطابق ملک میں چائلڈ لیبر میں اضافے کی وجہ عام طور پر بڑھتی ہوئی صرف غربت اور مہنگائی کو ٹہرایا جاتا ہے جو کہ ان کی رائے میں درست نہیں، ’’جو بچے اور بچیاں کام کرتے ہیں وہ کبھی بھی اپنے خاندانوں کو مکمل طور پر معاشی سپورٹ نہیں کر رہے ہوتے۔ بلکہ جو کچھ وہ کمائی کر رہے ہوتے ہیں، وہ ان کی اپنی ماہانہ کمائی ہوتی ہے۔ لوگ چائلڈ لیبر کو اس لیے بھی کام پر رکھتے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ سستی ہوتی ہے۔ تو اگر بچوں کو وہ ہزار پانچ سو مہینہ بھی دیتے ہیں تو آپ یہ نہیں کہ سکتے کہ اس چھوٹی سی رقم سے پورے خاندان کا گزارا ہو گا۔ اس لیے میری رائے کے مطابق ملک میں چائلڈ لیبر میں اضافے کی وجہ بہتر تعلم و تربیت کا فقدان ہے۔‘‘

پاکستان میں چائلڈ لیبر کے خلاف قانون موجود ہیں تاہم انیس جیلانی کے مطابق یہ ناکافی اور غیر موثر ہیں، ’’آپ کو یہ سن کر بہت حیرانی ہو گی کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے لے کر اب تک ایک بھی شخص کو بچوں کو ملازمت پر رکھنے کی وجہ سے گرفتار نہیں کیا گیا۔ سزا دی گئی تو صرف جرمانے کی جس کی رقم نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ عملدرآمد نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جتنے بھی قوانین بنائے گئے ہیں وہ رسمی یا فارمل سیکٹر کا احاطہ کرتے ہیں۔ جو ہمارا غیررسمی سیکٹر ہے، اس سے متعلق بہت ہی کم قوانین ہیں۔ مثلا گھریلو ملازم بچوں سے متعلق کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ اسی طرح جو بچے گاؤں یا دیہات میں زراعت کے پیشے میں کام کرتے ہیں، ان سے متعلق کوئی قانون نہیں۔ یعنی چائلڈ لیبر کا ایک بہت بڑا حصہ ایسا ہے، جن سے متعلق کوئی قانون نہیں بنایا گیا ہے۔‘‘

واضع رہے کہ ملک میں ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے مطابق، جو شخص بھی 16 سال سے کم عمر بچوں کو ملازم رکھتا ہے یا اس کی اجازت دیتا ہے تو اسے 20 ہزار روپے تک جرمانہ یا قید کی سزا جسکی مدت ایک سال تک ہو سکتی ہے، یا دونوں سزائیں اکٹھی بھی دی جا سکتی ہیں۔ اگر وہ شخص دوبارہ اسی طرح کے جرم کا ارتکاب کرے تو اس کی کم از کم سزا 6 ماہ ہے جس کی مدت دوسال تک بڑھائی جا سکتی ہے۔

عالمی ادارہ محنت کے مطابق چائلڈ لیبر کے زمرے میں آنے والے بچوں کی تعداد زیادہ تر قالین بافی، چوڑیاں بنانے کی صعنت، سرجیکل آلات بنانے، کوڑا چننے، چمڑا رنگنے کی صعنت کے علاوہ گھروں میں ملازمت کرتے ہوئے پائی جاتی ہے۔

Bangladesch Kinderarbeit Hausangestellte
پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد کا حتمی اندازہ لگانا مشکل ہے جو مختلف سیکٹرز میں مشقت پر مجبور ہیں۔تصویر: imago/epd

انیس جیلانی کے مطابق بین الاقوامی سطح پر اگر ان صنعتوں کی مصنوعات درآمد کی جائیں تو ان پر عالمی پابندیاں عائد ہونے کا امکان ہوتا ہے تاہم ان صعنتوں میں بچوں کی موجودگی کے باوجود پاکستانی مصنوعات پر پابندیاں نہیں ہیں، ’’اب تک تو ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کی مصنوعات پر چائلڈ لیبر کی وجہ سے پابندی عائد کی گئی ہو۔ آج سے 10 سال پہلے قالین بافی کی صنعت میں چائلڈ لیبر کی وجہ سے اس کی درآمد پر پابندی کی بات ضرور کی گئی تھی لیکن عائد نہیں ہوئی تھی۔ اسی طرح فٹ بال بنانے کی صنعت میں چائلڈ لیبر کے استعمال کے باعث پابندی عائد کی جا رہی تھی تاہم بے تحاشہ فنڈنگ کے بعد اس معاملے کو بھی نمٹا لیا گیا اور حالیہ ایسی کوئی ملکی مصنوعات نہیں ہیں، جن کی درآمد پر پابندی عائد ہو۔‘‘

چند ماہ قبل انٹرنیشنل لیبرآرگنائزیشن کے تحت جو رپوٹ شائع ہوئی، اس میں دنیا کے 67 ایسے ممالک کی فہرست جاری کی گئی ہے، جہاں چائلڈ لیبر کے حوالے سے خطرناک صورتحال ہے۔ اس فہرست میں پاکستان کا چھٹا نمبر ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس صورتحال کو بہتر کرنے میں حکومت سنجیدگی سے کوشش کرے اور مؤثر قانون سازی پر توجہ دے تو ملک میں چائلڈ لیبر کا خاتمہ ممکن ہے۔