باغی طرابلس میں داخل، لیبیا میں جشن جاری
22 اگست 2011چھ ماہ کی مسلسل مسلح جدوجہد کے بعد آخر کار باغی طرابلس شہر میں باوقار انداز میں فاتح کے طور پر داخل ہوئے۔ باغی طرابلس شہر میں دو اطراف یعنی ہوائی اڈے اور تجورہ شہر کی سمت سے داخل ہوئے۔ شہر میں باغیوں کے داخل ہونے پر مقامی لوگوں نے ان کا پرزور انداز میں خیر مقدم کیا۔ لیبیا کے دوسرے بڑے شہر اور باغیوں کے گڑھ بن غازی سمیت کئی دوسرے شہروں میں بھی عوام طرابلس پر فتح کا جشن رات بھر مناتے رہے۔ طرابلس کے بعض مقامات میں فتح کے جشن کے دوران لوٹ مار کی وارداتوں کو بھی رپورٹ کیا گیا۔ مبصرین کے مطابق اتوار کی تاریخی کو رات لیبیا پر قذافی کے بیالیس سالہ اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔
طرابلس میں معمر اقذافی کے حوالے سے قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بعض کے مطابق وہ اپنے آبائی شہر سرت کی جانب فرار ہو گئے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ وہ طرابلس میں ہی کسی محفوظ مقام پر ہیں۔ ایسا بھی بتایا گیا ہے کہ وہ لیبیا سے باہر جانے کی کوشش میں بھی ہیں۔ باغیوں کے بعض ذرائع کے مطابق وہ پیر کی شب لیبیا سے رخصت ہو جائیں گے۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق طرابلس ائیر پورٹ پر ساؤتھ افریقہ کے جہاز کھڑے ہیں اور قذافی ممکنہ طور ہر زمبابوے یا پھر انگولا ملک بدری اختیار کر سکتے ہیں۔ طرابلس کے بعض مقامات میں فریقین کے درمیان لڑائی کا بھی ذکر کیا جا رہا ہے۔
طرابلس کے مرکزی گرین چوک میں عوام اور باغی مسلسل نعرہ بازی میں مصروف ہیں۔ اتوار اور پیر کی درمیانی شب سے قبل وسیع و عریض گرین چوک صرف قذافی اور حکومت کی خصوصی تقریبات کا مرکز ہوتا تھا۔ اس چوک کے ارد گرد نصب قذافی کی تصاویر کو پر مسرت لوگوں نے تار تار کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ باغیوں نے گرین چوک کا نام شہدا چوک رکھنے کا بھی اعلان کیا۔ نعروں اور ہوائی فائرنگ سے شہر کی فضا گونجتی رہی۔ باغیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ دارالحکومت کے نواحی مقامات پر کنٹرول حاصل ہونے کے بعد سارا شہر ان کے سامنے بغیر کسی مزاحمت کے سرنڈر ہوتا چلا گیا۔ باب العزیزیہ اس وقت لڑائی کا فوکس ہے۔ سرکاری فوج مسلسل ہتھیار پھینکنے کے عمل میں مصروف رہی۔
طرابلس شہر میں باغیوں نے پیشقدمی کرتے ہوئے سرکاری فوج کی انتہائی ایلیٹ فورس خامص بریگیڈ کے ہیڈکوارٹرز پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ خامص بریگیڈ کا صدر دفتر ایک بڑے کمپلیکس میں قائم ہے۔
باغیوں کے مطابق معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام قذافی کو مسلح جھڑپ کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ باغیوں کے مطابق قذافی کے دو بیٹے ان کی حراست میں ہیں۔ ان میں ایک اور بیٹا محمد بھی شامل ہے۔ سیف الاسلام کو مغربی طرابلس کے سیاحتی قصبے ابوبکر الطاربُلسی سے حراست میں لیا گیا۔ قذافی کے صدارتی گارڈز نے بھی باغیوں کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔
انٹرنیشنل کریمینل کورٹ کے پراسیکیوٹر Luis Moreno-Ocampo نے بھی قذافی کے بیٹے کی حراست کی تصدیق کردی ہے۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے انسانیت کے خلاف جرائم کی پاداش میں سیف الاسلام قذافی کے وارنٹ گرفتاری 27 جون کو جاری کیے جا چکے ہیں۔ گزشتہ روز سیف الاسلام نے سرکاری ٹیلی وژن پر اپنی تقریر کے دوران یہ واضح کیا تھا کہ طرابلس حکومت کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کس طرح وہ سفید جھنڈا لہرا کر باغیوں کی اطاعت قبول کر لے۔ سیف الاسلام قذافی کی گرفتاری کا اعلان قومی عبوری کونسل کے سربراہ مصطفیٰ عبدالجلیل نے بن غازی میں کیا تھا۔ بیشتر باغی اس بات کی تمنا رکھتے ہیں کہ قذافی کے خلاف عدالتی کارروائی لیبیا ہی میں مکمل کی جائے۔
نیٹو تنظیم کے سربراہ آندرس فوگ راسموسن کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ باغیوں کی عبوری کونسل کے ساتھ مل کر فی الفور پرامن منتقلیٴ اقتدار کی کارروائی میں شامل ہو گا۔ راسموسن کے مطابق وہ چاہتے ہیں کہ اقتدار کی منتقلی کا عمل فوری انداز میں مکمل ہو اور اس دوران کم از کم خون خرابہ دیکھنے میں آئے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ان کی تنظیم سویلن آبادیوں کے تحفظ کے لیے فوجی نگرانی کا عمل جاری رکھے گی۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: امتیاز احمد